معاشرتی مسائل کے متعلق لوگوں کا رویہ ⇐ معاشرتی مسائل کے بارے میں لوگوں کا رویہ مختلف طرح کا ہوتا ہے ان میں سے چند کا ذکر نیچے کیا جاتا ہے۔
بے تعلقی
بعض افراد اور جماعتیں ہر قسم کے واقعات سے بے تعلق ہوتی ہیں۔ ان کو کسی قسم کے واقعات سے کوئی ایسی نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی معاشرتی مسئلہ خطر ناک صورت اختیار کر لیتا ہے، تب بھی اس قسم کے افراد اس میں کوئی دلچسپی نہیں لیتے بعض لوگ ان مسائل میں دلچسپی نہیں لیتے جن سے وہ متاثر نہیں ہوتے۔ ایسے افراد کی تعداد معاشرے میں کافی ہوتی ہے
عدیم الفرصتی
بعض افراد عدیم الفرصتی کے باعث سماجی مسئلے میں دلچسپی کا اظہار نہیں کرتے اور وہ اس وقت تک بے تعلق رہتے ہیں جب تک مصیبت خودان کے سر پر نہ آجائے۔ اس کے علاوہ ابتداء میں آبادی کی اکثریت مسئلے میں واپس نہیں لیتی اور اس سے بے تعلقی کا اظہار کرتی ہے۔
معاشرے کی فلاح
اس کی وجہ نفسیاتی ہے کیونکہ عام لوگ کسی مسئلے میں اس وقت دلچسپی لیتے ہیں جب ان کو خطرے کا یقین ہو جاتا ہے اور وہ جان لیتے ہیں کہ مسئلے کے وجود سے معاشرے کی فلاح خطرے میں ہے۔
تقدیر پرستی
راضی تقدیر رہنا ہی بعض لوگوں کا فلسفہ زندگی ہوتا ہے۔ تقدیر پرست کا یہ فلسفہ ہمیشہ سے مقبول عام رہا ہے اور اسی فلسفے کے سہارے صدیوں انسانوں نے ہر قسم کی مصیبتیں جھیلیں اور تکلیفیں برداشت کی ہیں ۔ ا کثر لوگ اس خیال کے حامل ہوتے ہیں کہ دنیا کے دکھ ناگزیر ہیں اور مقدر میں لکھ دیئے گئے ہیں۔
علاج
ان کے حل کی بس ایک ہی صورت ہے کہ ان کو ہنس کر برداشت کیا جائے ۔ اس قسم کے لوگ دکھوں کے علاج کی بھی کوشش نہیں کرتے یہ بات نہیں ہے کہ ان لوگوں کے ذہن میں یہ خیال کبھی نہیں آتا کہ علاج کیلئے کچھ کیا بھی جاسکتا ہے۔
شک اور بے یقینی
بعض لوگ اپنی طبیعت اور مزاج میں شکی ہوتے ہیں۔ انہیں کا ئنات کے اندر کوئی نظم وضبط نظر نہیں آتا۔ معاشرتی مسائل بھی ان کو اس بے ربط اور بے نظام کائنات کا ایک حصہ ہی دکھائی دیتے ہیں اور ان کے خیال میں چونکہ کائنات میں انسان نظم نہیں پیدا کر سکتا۔
کشتہ آلام
اس لئے انسانی کوششیں حالات کی درستگی کیلئے بے کار ہیں۔ یہ لوگ ایک خاص طرز فکر کے مالک ہوتے ہیں ان کے خیال میں انسان روز اول ہی سے کشتہ آلام ( دکھوں کا مارا ہوا) ہے اور وہ ہیشہ گرفتار الم ہی رہے گا۔ اس لئے غم سے رہائی کیلئے کسی قسم کی حرکت بے سود ہے یہ لوگ ہر عمل اور کوشش کو شک اور بے یقینی سے دیکھتے ہیں اور وہ بقول غالب اس فلسفے پر عمل کرتے ہیں۔
جزا و سزا پر یقین
بعض لوگ زندگی کے مسائل کو انسان کے برے اعمال کی سزا تصور کرتے ہیں۔ ان لوگوں کے خیال میں خداوند کریم انسانوں کو مصیبتوں اور پریشانیوں میں مبتلا کر کے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتا ہے۔ انسان کے سارے رنج وغم اس کی بد عمالیوں کی سزا ہیں۔ ان کے خیال میں قحط سالی ، سیلاب ، طوفان ، جنگ، فسادات، وبائی امراض ، تجارتی بحران اور دیگر آفات ارضی و سماوی قوت کی ناراضگی کے مظہر ہیں۔ اس لئے انسانی مسائل کا حل معاشرتی اداروں کی تبدیلی یا سماجی پالیسیوں کے نفاذ سے ناممکن ہے ۔ معاشرتی مسائل کا حل عبادات ، ریاضت اور تسبیح وتہلیل ہی سے ممکن ہے۔
زود حسی اور شدت جذبات
بعض لوگ زود حسن ہوتے ہیں وہ جب مسائل سے دو چار ہوتے ہیں تو بے حد فکر مند اور پریشان ہو جاتے ہیں اور شدت جذبات سے مغلوب ہو کر معاشرتی مسائل کو فورا حل کرنا چاہتے ہی اور مسائل کی توضیح و تشریح میں بالکل دلچسپی نہیں لیتے ان کی تمام توجہ ان فوری اقدامات پر ہوتی ہے
مسائل کا حل
جو وہ مسائل کے حل کیلئے اختیار کرتے ہیں۔ یہ لوگ مظلوموں کی مظلومیت سے وقتی طور پر جذباتی ہو جاتے ہیں اور عطیات و چندے جمع کرتے ہیں، خیراتی فنڈ کھولتے ہیں اور امداد پہنچانے میں جلدی کرتے ہیںلیکن ان کی یہ اعداد صرف گنے چنے لوگوں تک محدود ہو کر رہ جاتی ہے اور اصل بیماری کی بیخ کنی نہیں ہو پاتی۔ اس قسم کے لوگوں کا ایک بڑا کارنامہ یہ ہے کہ وہ اپنی زودحسی سے دوسرے افراد کی توجہ بھی معاشرتی مسائل کی طرف مبذول کرانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
علمی تحقیقات اور جائزے
معاشرتی علوم کی جانب خالص عملی رویہ معاشرتی علوم کے ماہرین کا ہوتا ہے۔ بلاشبہ یہ لوگ مصیبت زدوں کے ساتھ ہمدردی رکھتے ہیں۔ لیکن صرف ہمدردی کو کافی نہیں سمجھتے۔ ان کے خیال میں ہمدردی کو عملی شکل دینے کیلئے ایک ماہر فن کی واقفیت، ایک پیشہ ور کی مہارت اور ایک مخلص دوست کی ہمدردی اور عاقبت اندیشی بھی ضروری ہوتی ہے۔
معاشرتی علوم
اس لئے معاشرتی علوم کے ماہرین مسئلہ کی چھان بین اور حل کیلئے خالص علمی و عملی طریقہ تحقیق اختیار کرتے ہیں۔ وہ پہلے مسئلے کی تعریف اور حد بندی کرتے ہیں پھر اس مسئلے سے متعلق جملہ حقائق اور کوائف کو جمع کرتے ہیں اور اس کے بعد مسئلے کے اسباب سے متعلق تمام مفروضے چن لیتے ہیں انہیں گمان غالب ہوتا ہے کہ مسئلے کا اصل سبب وہی ہے۔ اس کے بعد وہ اس سبب یا اسباب کو دور کرنے کیلئے پالیسی مرتب کرتے ہیں۔
اسباب کا ازالہ
یہ پالیسیاں عمل کی چند ایسی راہیں ہوتی ہیں جن کو اختیار کر کے ان اسباب کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ جن کی وجہ سے مسئلہ پیدا ہوا تھا۔ nماہرین اپنی پالیسیوں کو معاشرتی اقدار کی روشنی میں مرتب کرتے ہیں تا کہ طریق کار میں قدم قدم پر دشواریاں نہ ہوں۔
جماعتوں کی مخالفت
ان کواپنی کوششوں کی راہ میں بعض جماعتوں کی مخالفت کا خدشہ لاحق رہتا ہے، ان کو مفاد پرست گروہوں کی ریشہ دوانیوں سے باخبر رہنا پڑتا ہے۔ بعض معاندین کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا ہوتی ہے اور خود مسئلے کے حل کیلئے ان کو غیر جانب دار رہنا ہوتا ہے۔ اپنے ذاتی انداز فکر، خیالات ، جذبات اور تعصبات کو بالائے طاق رکھنا ہوتا ہے۔ یہ لوگ مسئلے کی چھان بین کے دوران نہ تو اپنے افکار کے رجحان سے متاثر ہوتے ہیں اور نہ افواہوں اور دوسروں کے مشوروں سے۔
معاشرتی مسائل کے مطالعے کا طریقہ
یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیے کہ معاشرتی مسائل واضح اور آسان نہیں ہوتے ۔ وہ بہت مبہم اور بے شمار ہر کوائف میں الجھے ہوتے ہیں۔ ہر مسئلہ بے شمار مسائل کی گتھی ہوتا ہے۔ اس لئے حقیقی انداز میں کسی معاشرتی مسئلے کی تشریح بڑی دشوار بات ہے۔ معاشرتی مسائل کی وضاحت کیلئے سیاق و سباق کی ضرورت ہوتی ہے۔ معاشرتی مسائل کے مطالعے کیلئے عام طور پر تین طریقے اختیار کئے جاتے ہیں ۔ اول طریقہ وہ ہے جس میں معاشرتی افراتفری اور بے نظمی کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ دوئم وہ طریقہ ہے جس میں انفرادی بے راہ روی کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ سوئم وہ طریقہ ہے جس میں اقدار کے تصادم کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
معاشرتی انتشار اور بے نظمی کا مطالعہ
کسی معاشرے میں انتشار اس وقت نمودار ہوتا ہے جب روایتی اقدار کا احترام افراد کے دلوں سے اٹھ جاتا ہے اور خارجی اقدار وا طوار کا غلبہ ہوجاتا ہے۔ روایتی اقدار یا تو بلکل مسمار ہو جاتی ہیں یا اس قدر کمزور ہو جاتی ہیں کہ وہ معاشرے کو سہارا دینے کی سکت نہیں رکھتیں۔ معاشرتی انتشار اور بے علم کا مفہوم یہ ہے کہ معاشرتی آداب سے ترتیب استحکام اور استقلال کی صفات غائب ہونے لگتی ہیں۔ افراد کے کردار میں نا ہمواری آجاتی ہے
علم کی تشریح
لوگ پرانی روش پر چلنا چھوڑ دیتے ہیں۔ اس لئے ماہرین معاشرتی بے علمی کی تشریح کرتے وقت عام لوگوں کے کردار کی ناہمواری کو ضرور ذہن میں رکھتے ہیں۔ تشریح اس طرح کی جاتی ہے کہ ماہرین سب سے پہلے عام سیرت و کردار کی ان شکلوں کی وضاحت کرتے ہیں جو مسئلے کا آغاز ہونے سے پہلے موجود تھیں۔ پھر اس بات کا جائزہ لیا جاتا ہے کہ افراد کے کردار معاشرتی تبدیلیوں کے زیر اثر کس طرح پارہ پارہ ہوئے اور اس کے بعد ان تجاویز کو زیر غور لایا جاتا ہے جو حالات کو سازگار بنانے میں کارآمد ثابت ہو سکتی ہیں۔
انفرادی بے راہ روی کا مطالعہ
معاشرتی نظم وضبط اور معاشرتی انتشار ارکان معاشرہ کے کردار سے الگ وجود نہیں رکھتے ۔ چونکہ معاشرتی انتشار کا اظہار افراد کے کردار کی ناہمواری سے ہوتا ہے۔ اس لئے افراد کا عام روش سے ہٹا ہوا عمل معاشرتی مسائل کے وجود میں آنے کا باعث ہوتا ہے۔
معاشرتی اداروں کی بدنظمی
لوگوں کا عام راستے سے ادھر ادھر بھٹکنا صرف معاشرتی اداروں کی بدنظمی پرہی روشنی نہیں ڈالتا بلکہ بے راہ افراد کی نشو و نما اور تعلیم و تربیت کی خامی کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ جب کوئی شخص بے اطمینان اور بے سکون ہوتا ہے اور ہیجانی کیفیت اس کے قابو سے باہر ہو جاتی ہے تو وہ عام روش سے ہٹ کر ایک نئی راہ اختیار کر لیتا ہے ۔ جب اس قسم کے افراد کی تعداد کافی ہو جاتی ہے تو وہ معاشرے کیلئے ایک مسئلہ بن جاتے ہیں۔ اس طریق تحقیق میں صرف چند بے راہ افراد کے کردار کا گہرا مطالعہ کیا جاتا ہے۔
اقدار کے ٹکراؤ کا یا تصادم کا مطالعہ
معاشرے کی تمام اقدار پر ارکان معاشرہ کا اتفاق رائے نہیں ہوتا۔ جماعتوں میں اس بات پر جھگڑے ہوتے ہیں۔ آپس کے تنازعات کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ افراد کے خیالات پراگندہ ہو جاتے ہیں اور پھر یہ معلوم کرنا دشوار ہو جاتا ہے کہ وہ کون سے حالات ہیں جو اصلی مسئلے کی پیدائش کا سبب بنتے ہیں۔ متضاد آراء سے پریشان ہو کر کچھ لوگ بے راہ ہو جاتے ہیں۔ اس قسم کے لوگ عام راہ سے بھٹک کر مخرب اخلاق افعال کے مرتکب ہونے لگتے ہیں۔
مخصوص اغراض
اس لئے کسی بھی معاشرتی مسئلے کے صحیح فہم و ادراک کیلئے مندرجہ بالا باتوں کو ذہن میں رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ جب کسی معاشرے میں مفاد پرست گروہ زیادہ طاقتور ہوتے ہیں تو وہ اپنے مخصوص اغراض و مقاصد کے پیش نظر معاشرتی مسئلے کو دباؤ ڈال کر یا تو بڑھا دیتے ہیں یا پھر خفیہ طریقوں سے مسئلے کی اہمیت کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “معاشرتی مسائل کے متعلق لوگوں کا رویہ“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ