معاشی منصوبہ بندی

معاشی منصوبہ بندی ایسا معاشی ضابطہ جس میں ملک کے معاشی مسائل کا خاکہ سرکاری اخراجات کی فہرست اور نجی شعبہ کی کار کردگی کو باہم مربوط کر دیا جائے ، معاشی منصوبہ بندی کہلاتا ہے۔

 

معاشی منصوبہ بندی

معاشی منصوبہ بندی کی نوعیت 

دنیا کے ترقی یافتہ ملکوں کی معاشی تاریخ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ملک کو معاشی میدان میں دنیا آگے بڑھانے کے لئے تین قسم کے طریقہ کار اختیار کئے گئے ہیں۔

تمام معاشی فیصلوں کے لئے کلیتہ منڈی کی میکانیت پر دار و مدار یعنی آزاد معاشی نظام کا طریقہ مکمل طور پر منصوبہ بندی معیشت یعنی ایسی صورت حال جس میں تمام اہم معاشی فیصلے ایک مرکزی با اختیار ادارہ کرے اور بھی افراد کو کاروبار کی آزادی نہ ہو۔ مخلوط معیشت یعنی ایسا نظام جس میں حکومت اور عوام دونوں ملکر معاشی نشوونما میں حصہ لیں۔ ایسی حیثیت میں سرکاری شعبہ اور نجی شعبہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ کچھ معاشی سرگرمیاں سرکاری شعبے میں وقوع پذیر ہوتی ہیں اور کچھ بھی شعبے میں۔

ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور مغربی یورپ

ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور مغربی یورپ کے بیشتر ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام یا آزاد معاشی نظام غالب ہے یعنی ان ممالک میں تمام بنیادی معاشی فیصلے قیمتوں کی میکانیت کے واسطے سے ہی طے پاتے ہیں تاہم ان ممالک میں بھی سرکاری شعبہ یقینا موجود ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نجی افراد کے معاشی معاملات میں حکومت کی مداخلت بڑھتی جا رہی ہے۔

روس، چین اور مشرقی یورپ

روس، چین اور مشرقی یورپ کے ممالک جنہیں ہم اشتراکی ممالک کہتے ہیں۔ ان ممالک میں بنیادی معاشی فیصلے بھی افراد کی بجائے حکومت یا حکومت کا مقرر کردہ کوئی مرکزی با اختیار ادارہ کرتا ہے گویا ایسی معیشتوں میں سرکاری شعبہ ہی غالب ہوتا ہے اور نجی شعبہ کوکوئی قابل ذکر مقام حاصل نہیں ہوتا ۔

دنیا میں زیادہ تر ممالک

دنیا میں زیادہ تر ممالک ایسے ہیں جن کی معیشتیں مخلوط نوعیت کی ہیں۔ ان میں سرکاری شعبہ اور نجی شعبہ ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔ وہ کام جن کا تعلق براہ راست عوام کی فلاح و بہبود سے ہے یعنی مفاد عامہ سے متعلق صنعتیں اور کاروبار، سرکاری شعبہ میں چلائے جاتے ہیں ، مثلاً دفاع سے متعلق صنعت و تجارت، ریلوے کی خدمات ، روڈ ٹرانسپورٹ کا ایک حصہ ڈاک و تار اور ٹیلی فون سے متعلق خدمات کی بہم رسانی، پانی اور بجلی کی سہولتوں کی فراہمی وغیرہ ، یہ سب کام سرکاری شعبه سرانجام دیتا ہے اور دیگر سب صنعتی اور زراعتی کارو بارنجی شعبہ چلاتا ہے، کیونکہ اس شعبہ میں نفع کا محرک بیشتر نتائج پیدا کر سکتا ہے۔

پاکستان کامعاشی نظام

پاکستان بھی اک مخلوط معاش نظم کے تحت معاشی ترقی کے سفر پر رواں دواں ہے۔ پاکستان میں ایسے تک جو منصوبہ بندی عمل میں لائی گئی ہے، اس میں سرکاری شعبہ اور بھی شعبہ دونوں نے کافی موثر کردار ادا کیا ہے تا کہ ملک کم سے کم عرصہ میں ایک فلاحی مملکت کی صورت اختیار کرے ۔ ہمارا ملک نہ تو اس بات کے حق میں ہے کہ نجی کاروبار کا یکسر گلا گھونٹ دیا جائے ورنہ وہ یہ پسند کرتا ہے کہ جی شعبہ اس قدر غالب آجائے کہ اس کی بے لگام سرگرمیوں سے مفاد عامہ کو ضرب کاری لگے، بلکہ ہم ایک ایسے متوازن مخلوط نظام کے حق میں ہیں جو سرکاری اور بی کاروبار کا اک ایسا عمدہ احراج ہو جو ساہی کشیدگی پیدا کئے بغیر توی دولت میں زیادہ سے زیادہ اضافہ کا موجب بنے۔ ماضی کی حکومت نے ملک کو اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لئے چند اہم اقدامات کئے ہیں جس میں نظام زکوۃ کا نفاذ ایک قابل ذکر پیش رفت ہے۔ حکومت یہ بھی ارادہ رکھتی ہے کہ بتدریج سودی نظام کو ختم کر کے شراکت کی بنیاد پر ایک ایسا اسلامی اقتصادی نظام قائم کیا جائے جو ایک استحصال سے پاک اور مطمئن معاشرہ کے قیام کا ضامن ہو۔ لیکن اس سلسلہ میں ابھی تجرباتی طور پر کام جاری ہے اور جب تک ایک مکمل اسلامی اقتصادی نظام وجود میں نہیں آجاتا، اس وقت تک ہمیں ایک مخلوط معاشی نظام کے تحت معاشی ترقی کا سفر طے کرنا ہوگا ۔

تفاعلی منصوبہ بندی

پاکستانی قوم ایک ایسی معاشی منصوبہ بندی پر یقین رکھتی ہے جو ملک کا سیاس اور اقتصادی نظام بدلے بغیر اور منصوبہ بندی کو ماہرین معاشیات تفاعلی منصوبہ بندی کا نام دیتے ہیں۔

 منصوبوں کی تیاری

اگرچہ پاکستان نے کولبو پلان کے تحت بھی 57-1951 کی چھ سال مدت کے لئے ایک ترقیاتی پروگرام بنایا تامین ملک میں باقاعدہ معاش منصوبہ بندی کا آغاز پاستا کے پہلے پانچ سالہ صوبہ سے ہوا اس سے پہلے حکومت پاکستان ے جولائی 1953 میں ایک قومی منصوبہ بندی اور قائم کردیا۔ پاکستان کے لئے معاش منصوبے تیار کرنا اوران پرعمل درآمد کے لئے ضروری اقدامات کرنا اس کمیشن کی ذمہ داری ہے۔ کمیشن ملک کے تمام انسانی اور قدرتی وسائل کا بھر پور جائزہ لے کر عام طور پر پانچ سال کے مدت کے معاشی منصوبے تیار کرتا ہے، حالات کے مطابق اس مدت سے زیادہ اور ک کے منصوبے بھی تیار کرتا رہا ہے، قومی منصوبہ بندی کا چیئر مین ، صدر مملکت ہوتا ہے لیکن عملی طور پر اصل ذمہ دار اتھارٹی منصوبہ بندی کمیشن کا ڈپٹی چیئر مان ہوتا ہے، جس کا درجہ ایک مرکزی وزیر کے برابر ہوتا ہے۔ منصوبہ بندی کے بارے میں تمام اہم فیصلوں کی منظوری قومی اقتصادی کونسل دیتی ہے۔ اس کونسل کے اراکین میں ڈپٹی چیئرمین کے علاوہ تمام مرکزی وزرا اور چاروں صوبوں کے گورنر شامل ہوتے ہیں۔ صوبائی سطح پر ہر صوبے میں ایک صوبائی منصوبہ بندی بورڈ اور صوبائی منصوبہ بندی اور ترقی کے محلے موجود ہیں جو قومی منصوبہ تیار بندی بورڈ کے زیر نگرانی اور اس کی ہدایات کے مطابق عمل کرتے ہیں۔ صوبائی بور ڈ اپنے اپنے صوبوں کے لئے ترقیاتی منصوبے کر کے قومی منصوبہ بندی کمیش کو بھیجے ہیں جوان کی چھان بین کر کے انہیں قومی منصوبہ میں شامل کرتی ہے۔

منصوبوں کی جزئیات پرعمل درآمد

منصوبوں کی جزئیات پر عمل درآمد کے لئے مرکزی ، علاقائی اور مقامی ملکی مناسب اور مطلوبہ مشیزی مقرر کی گئی ہے۔ کیونکہ معاشی منصوبہ بندی کا عمل ایک پیچیدہ عمل ہے۔ اس لئے اس کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے بہت بڑی تعداد میں مستعد ، دیانتدار اور حب الوطنی کا جذبہ رکھنے والے افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ منصوبوں کی کامیابی کا بڑی حد تک دارو مدار اس بات پر ہوتا ہے کہ مقامی سطح سے لے کر مرکزی سطح تیک تمام سرکاری و نیم سرکاری اور بھی ادارے پوری توجہ اور لگن کے ساتھ کام کریں تا کہ منصوبے کی ہر چیز پر مکمل طورپر عمل درآمد ہو جائے ۔

منصوبہ بندی کمیشن

منصوبہ بندی کمیشن دو حصوں میں منقسم ہے۔  ٹیکنیکل سیکشن معاشی سیکشن ۔ ان میں سے ہر ایک پھر آگے کئی چھوٹے سیکشنوں میں منقسم ہے۔ ہر چھوٹے سیکشن کا نگران اعلیٰ ایک سینئر سرکاری افسر ہوتا ہے جو سیکشن کا چیف بھی کہلاتا ہے۔ معاشی سیکشن پہلے سے طے شدہ حکمت عملی کے مطابق معاشی منصوبہ تیار کرتا ہے اور ٹیکنیکل سیکشن اس کی ماہرانہ چھان بین کر کے اس کو آخری شکل دیتا ہے جو بالآخرقومی کونسل کے پاس منظوری کے لئے پیش کر دیا جاتا ہے۔ اس کی منظوری کے بعد اس پر عمل درآمد شروع ہو جاتا ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "معاشی منصوبہ بندی"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment