بھارت سے تنازعہ
منصوبہ کے وجود میں آنے کی وجوہات ⇐ 1947 ء میں جب پاکستان قائم ہوا تو پاکستان میں چھ دریا بہتے تھے۔ سندھ اور جہلم اور چناب پاکستان کے مغربی حصے سے بہتے ہوئے ملک میں داخل ہور ہے تے جبکہ راوی چینی اور نیاس ملک کے مشرقی حصے یعنی بھارت سے بہتے ہوئے پاکستان میں داخل ہو ر ہے تھے دریائے راوی پر مادھو پور کے مقام پر ہینڈ ورکس تھا جس سے نہری پانی پاکستانی علاقہ کو سیاہ کرتا تھا اور دریائے ان پر فیروز پور کے نام پر دوسرا یہ دور تھا جو نہری پان کو پاکستان علاقہ میں جاری کرتا تھا ان دونوں ہیڈ ورکس کا کنٹرول چونکہ بھارت میں تھا اس لئے اس نے اپنی ازلی دشمنی کا ایک اور طریقہ استعمال کیا کہ اپریل 1948ء میں ان دونوں ہیڈ ورکس سے نکلنے والی تمام شہروں کا پاکستان کے درمیان پانی کا تنازعہ کھڑا ہو گیا اور پاکستان کے مشرقی علاقے خشک سالی سے دوچار ہو گئے اس وقت جھگڑے کو نمٹانے کے لئے دونوں ملکوں کے درمیان ایک جزوی معاہدہ ہوائے کا نام دیا گیا اور جس پر سی 1948 ء میں دستخط کئے گئے جس کی بدولت پاکستان کو وقتی طور پر پانی کی فراہمی جاری ہو گئی بھارت پھر بدل گیا اور اس نے 1950ء میں اقوام متحدہ میں درخواست دے دی کہ ان شہروں پر بھارت کا مکمل اختیار ہے اور یہ کہ پاکستان کو ہمیشہ کے لئے ان شہروں کا پانی نہیں دیا جا سکتا۔
عالمی بنک مداخلت
چونکہ بھارت کا دعوی تھا کہ ستلج ، پیاس ، راوی بھارت کے دریا ہیں اس لئے تنازعہ زور پکڑ گیا اور آخر کار 1952ء میں عالمی بنک نے اس مسئلہ کا حل تلاش کرنے کے لئے اپنی خدمات پیش کیں۔ چنانچہ اس بینک کی نگرانی میں رور دونوں ملکوں کے مابین 1960ء میں جو معاہدہ ہوا اس کا نام سندھ طاس کا معاہدہ پڑا اور اس معاہدے کے تحت سندھ طاس کا منصوبہ ظہور پذیر ہوا۔
منصوبہ کے خاص نکات
اس منصوبہ کے تحت بھارت کو تین مشرقی دریاؤں کا مکمل کنٹرول حاصل ہو گیا جبکہ مغربی در یاؤں پر پاکستان کی حاکمیت تسلیم کر لی گئی۔ 31 ماری سنہ 1970ء تک پاکستان کو یہ اختیار حاصل ہو گیا کہ وہ اپنی ضروریات مشرقی دریاؤں کی شہروں سے پورا کرتا رہے گا یہ مدت مزید تین سال تک قابل توسیع ہوگئی۔ اس درمیانی مدت میں پاکستان اپنے مغربی دریاؤں سے ایسا بندوبست کر لے گا کہ اس کے مشرقی علاقہ کی بھی ضرورت پوری کی جاسکے۔ مغربی در یاؤں سے مشرقی دریاؤں کی بہوں میں پانی لنک کنال کے ذریعے پہنچایا جائے گا جس کے لئے ڈیم اور بیران تعمیر کرنا ہوں گے۔ اخراجات کا بڑا حصہ عالمی بنک نے خود دینے کا ذمہ لیا تھوڑا حصہ بھارت نے بھی ادا کرنا منظور کیا اور باقی حصہ پاکستان کو برداشت کرنا تھا۔ اس خرچ کو پورا کرنے کیلئے سمبر 1960 ء میں ایک نیا فنڈ بھی قائم کیا گیا جس کا نام رکھا گیا۔ اس فنڈ میں امریکہ، برطانیہ مغربی جرمنی، کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے عطیات دیئے ، پاکستان اور بھارت کے شیئر ز بھی تھے۔ اس فنڈ میں ابتدائی طور پر 893.5 ملین ڈالر جمع کرانا تھا جس میں سے 630.9 ملین ڈالر کی رقم زر مبادلہ کی شکل میں تھی بعد ازاں زرمبادلہ کی رقم کو اس حد تک بڑھا دیا گیا کہ فنڈ کی مالیت 945.9 ملین ڈالر ہوگئی۔
منصوبہ کو چلانے کے لئے مستقل کمیشن کا قیام
بھارت اور پاکستان کے مستقل کمیشنر اس منصوبہ کے نگہبان قرار دیئے گئے جن کے کمیشن کا نام رکھا گیا اسکمیشن کی ذمہ دار تھی کہ منصوبے کو تحصیل جامع پہنانے کے لئے دونوں ملکوں کا تعاون قائم رکھے اور جب بھی کوئی مسئلہ کھڑا ہو تو فورا موقع پر پہنچ کر حالات کا جائزہ لے اور اس کا حل ڈھونڈ لے۔
منصوبہ کی جھیل محمد ایڈا کا کردار:
منصوبہ کے تیل کی ذمہ داری واپڈا کے حوالے کی گئی جو مندرجہ ذیل تھی: دریائے جہلم اور دریائے سندھ پر روڈیم تعمیر کئے جائیں گے۔ پانچ پیران تعمیر کئے جائیں گے۔ آٹھ رابطہ نہریں نکالی جائیں گی۔ موجودہ 3 رابطہ شہروں، دو ہیڈورکس اور کچھ آب پاشی والی نہروں کے ماڈل میں اس قسم کی تبدیلی کی جائیگی کہ دونی ضرورت کے مطابق کارآمد بن سکیں۔
تعمیری تفصیلات
ہم اور دریا ذخیرہ کی صلاحیت 5.4 ملین ایکٹرفٹ تھی۔ اس پانی سے فصلیں سیراب ہونا اور بجلی پیدا کرنا مقصود تھا۔ اس ڈیم کی لمبائی 11000 فٹ اور اونچائی 380 فٹ ہے۔ اس منصوبہ پر 1962ء میں کام شروع ہوا اور 1967ء میں ختم ہوا کل خرچ کا تخمینہ 200 کرو رو پے لگایا گیا ۔ تربیلا ڈیم کی تعیر دریائے سندھ پر کرنا تھی جو اتک ۔ سے تقریبا 48 کلومیٹر کے فاصلے پر اور دنیا کامٹی سے بھرائی کیا ہوا سب سے بڑا ڈیم ہے۔ مندرجہ ذیل پانچ مقامات پر ایک گیٹ والا بیراج بنانے کا پروگرام ملے ہوا۔
- رادی پر سندھنائی کے مقام پر
- چناب پر قادر آباد کے مقام پر
- سندھ پر چشمہ کے مقام پر
- چناب پر مرالہ کے مقام پر
- جہلم پر رسول کے مقام پر
- اور ستلج پر میلسی کے مقام پر
ان بیراجوں کی مدد سے مغربی دریاؤں کا پانی مشرقی دریاؤں راوی اور ستلج میں رابطہ نہروں کے ذریعہ ڈالا جائے گا ۔ رابطہ نہروں کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے۔ سند حنائی، تیر نمود سند ھائی سیکسی اور میلسی بہاول رابطہ رسول، قادر آباد، بلو کی رابطہ، نیز بلو کی سلیمان کی رابطہ چشمہ جہلم اور تونسہ، پنجند رابطہ اس منصوبہ سے پاکستان کی آبی ضروریات کی قلت کسی حد تک کم ہوگئی ملک میں بجلی پیدا کرنے کے دو بڑے ذرائع منگل اور تربیلا حاصل ہو گئے نئے علاقوں میں زیر کاشت رقبہ سیراب ہونے لگا لاکھوں آدمیوں کو روز گار مہیا ہوا اور مستقل روزگار کے ذرائع پیدا ہو گئے ماہی گیری کے بڑے ذرائع پیدا ہو گئے بھارت کی آئے دن کی مداخلت سے نجات ملی۔
کھاد کی اہمیت و ضرورت
کاشت کاری سے مختلف داخلین میں سے پانی کے بعد کھاد کا اس کی اہمیت کے اعتبار سے وسرا نمبر ہے۔ کھاد کو مناسب مقدار میں استعمال کرنے سے پودوں میں بالیدگی آتی ہے۔ پودے مضبوط اور تن آور ہوتے ہیں ی ان کے بچوں میں ہریالی اور شاخوں کی تعداد بڑھتی ہے اور آخر کار ان میں زیادہ تعداد میں پھل آتے ہیں۔ اس طرح مجموعی قبل میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہمارا کاشتکار ابھی تک روایتی طریقے سے کاشت کرتا چلا آرہا ہے، چنانچہ وہ کھاد کواتنی ہمت نہیں دیتا جتنا کہ شیح طور پر دیا جانا چاہیے۔
کھاد کا غلط استعمال
ہمارا کاشت کار اپنے گھر کا کوڑا کرکٹ صاف کر کے براہ راست اپنے کھیتوں میں پھینکتا ہے اور بعد میں ان میں ہل چلا کر بوائی کرتا ہے اس طرح وہ سمجھتا ہے کہ زمین کو کھاد کی مطلوبہ مقدا رل گئی ہے کچھ ایسے کسان بھی ہیں کہ وہ اپنے جانوروں کا گوہر اپنی زمینوں میں براہ راست پھینکتے ہیں اور انہیں ڈھیری کی شکل میں ڈالتے رہتے ہیں اس طرح گوبر کی نائٹروجین دھوپ اور ہوا میں تحلیل ہو کر ضائع ہو جاتی ہے اور جو بچتی ہے وہ تمام کھیتوں میں متوازن طور پر تقسیم نہیں ہوتی بلکہ ایک جگہ کھاد کی فاضل مقدار ہو جانے سے اس مقام پر پودوں کی بالیدگی بڑی تیز ہو جاتی ہے جبکہ دوسری جگہوں میں کھاد کی تھوڑی سی مقدار کمی را پینے کے پیارے نہایت کمزور ہو جاتے ہیں بعض اوقات میں بھی دیکھنے میں آیا ہے کاشتکار کھا تو زمین میں ڈال دیتا رہے مگر اسے نا تو اچھی طرح زمین پر پھیلاتا ہے اور نہ ہی اپنی زمین کو پانی کی مطلوبہ مقدار دیتا ہے جس کے سبب کھاد کی اصل افادیت ضائع ہو جاتی ہے۔
کھاد کا صیح استعمال
عام طور پر دو قسم کی کھادیں ہماری فصلوں میں ڈالی جاتی ہیں اول قدرتی کھادیں ، دوئم مصنوعی کھادیں ، کا تیار اور قدرتی کھادوں میں گوبر اور سبز کھاد کا شمار ہوتا ہے جبکہ مصنوعی کھادیں کارخانوں میں تیار ہوتی ہیں اور تھیلوں میں بند کر کے بازار میں فروخت ہوتی ہیں گو بر اور سبز کھاد کا استعمال بھی اسی طرح محتاط طریقے سے کرنا چاہیے جس طرح ولایتی کھادوں کے لئے. استعمال کیا جاتا ہے ملا گو ر کو پہلے سے گڑھے میں ڈال کر مٹی سے ڈھانکنا چاہے تا کہ وہ اس جگہ پر چھ ماہ یا سال تک پڑی رہے اور اچھی طرح گل سڑ جائے ایسی کھادوں میں ایک جانب نائٹروجن وافر مقدار میں پیدا ہو جاتی ہے اور دوسری جانب کیڑے مکوڑے یاد یک پرورش پانے والے عناصر ختم ہو جاتے ہیں جس سے فصلوں کو بچاؤ حاصل ہوتا ہے سبز کھاد کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ہمارا کسان اپنی زمین کی مختلف فصلوں کو گہرا ہل چلا کر زمین میں دبا دیتا ہے اور کچھ عرصہ تک زمین کو خالی رہنے دیتا ہے اس طرح یہ پودے زمین میں گل سڑ جاتے ہیں اور کھاد بن جاتے ہیں بعد ازاں مطلوبہ فصل ہوئی جاتی ہے ان دنوں کھادوں کے برعکس ولایتی کھادیں بھی استعمال کی جاتی ہیں جن میں ایمونیم سلفیٹ ، یوریا سبز سلفیٹ اور D.A.P وغیرہ شامل ہیں ان کھادوں کو بڑی احتیاط سے زمین میں ملانا چاہیے اور اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے ڈالنے کے بعد پانی کی مطلوبہ مقدار زمین کو ضرور ملے تاکہ ان کے تمام اجزاء زمین میں تحلیل ہو جا ئیں بعض کاشت کار کوشش کرتے ہیں کہ ایسی کھادوں کو پانی دیتے وقت پہلے ہی تحلیل کر لیا جائے تا کہ اس کی متوازن تقسیم پانی کے ہمراہ ہو جائے ۔
نائٹروجن فراہم کرنے والی کھادیں
- سوڈیم نائٹریٹ
- کیلیشیم نائٹریٹ
- یوریا
- ایمونیم کلورائیڈ
- ایمونیم نائٹریٹ
- ایمونیم سلفیت
- ایمونیم سلفیٹ نائٹریٹ
فاسفورس فراہم کرنے والی کھادیں
- سنگل سپر فاسفیٹ
- کنسٹریٹ پر فاسفیٹ
- ڈائی کیلشیم فاسفیٹ
یوٹاشیم فراہم کرنے والی کھادیں
- میوریٹ یا کلورائڈ آف پوٹاش
- سلفیٹ آف پوٹاش – میگنیشیا
- سلفیٹ آف پوٹاش
- اسلوبنائٹ
مصنوعی کھاد کے فی ایکڑ استعمال کا بین الاقوامی تقابلی جائزہ
پاکستان میں مصنوعی کھاد کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ زیر کاشت رقبہ میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ پانی کی فراہمی کا بندوبست بھی بہتر ہو رہا ہے۔ لوگوں میں مشینی کاشت کا رحجان بھی بڑھ رہا ہے۔ یہ تمام باتیں غالبا اس لئے ہیں کہ زرعی پیداوار کی قیمت میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے کسان کو اس کی محنت کا معقول معاوضہ مل رہا ہے۔ ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے کا شکار کھاد کا فی ایکڑ استعمال بڑھائیں اور اسے بہتر معاشی طور پر استعمال کر کے اپنی کھیتی باڑی کو زیادہ منافع بخش بنا ئیں مگر اس ضمن میں ابھی تک نتائج کچھ زیادہ حوصلہ افزاء نہیں ہیں دنیا کے دوسرے ممالک کھاد کا بہت ہی زیادہ استعمال کرتے ہیں اور اس کی بدولت اپنے کاشت حقیق اور کاشت وسیع دونوں کو منافع بخش طور پر چلاتے ہیں ہمارا کاشتکار دوسرے ممالک کے مقابلہ میں بہت پیچھے ہے۔
کھاد کی درآمد
ہماری کھاد کی رسد ہماری طلب کے مقابلہ میں بہت کم ہے جس کے نتیجے میں ہمیں بیرون ملک سے کثیر زرمبادلہ خرچ کر کے باد در آمدکرنا پڑی ہے کھاری بین الاقوامی سوں میں تیزی سے اضافہ کے سبب ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر پر بھاری بوجھ پڑ رہا ہے بلکہ دوسری جانب ہمارے کا شتکاروں کو بھاری اعانہ دیگر حکومت کھاد کی تقسیم کر رہی ہے تا کہ کسی طرح زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جائے اور خاص کر گندم کی پیداوار میں تا کہ ہارا ملک جلد از جلد خود فیل ہو۔
کھاد کی تقسیم بر اعانہ کا بوجھ
زرعی پیداوار کی رسد کو بڑھانے کے لئے ہمارے کا شتکاروں میں کھاد کی زیادہ تقسیم از حد ضروری ہے چونکہ بین الاقوامی قیمتوں میں اضافہ کے سب ملکی قیمت کی سطح میں اضافہ ناگزیر ہو گیا اور خطرہ اس بات کا تھا کہ اگر ہمارے کا شتکاروں کو قیمت کا تحفظ نہ دیا گیا تو پیداواری تفاعل متاثر ہوں گے اس لئے حکومت نے کھاد کے استعمال پر اعانہ دینے کی الیسی شروع یک راس سی ڈی کا بوجھ ہماری حکم پر بڑھتا جارہا ہے معاش نقطہ نظرسے ایسی حالت تشویشناک خیال کی جاتی ہے اور اس مسئلہ کا فوری حل صرف یہ ہے کہ کھاد کی پیداوار بڑھائی جائے اور کھاد کی درآمدات کا انحصار کم کیا جائے ۔
کھاد کی درآمدی قیمت اور ملکی قیمتوں میں فرق
ہمارے ملک میں کھاد کی پیداوار میں اضافہ سے ہماری زراعت پر خوشگوار اثرات پڑیں گے جس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ درآمد شدہ کھاد ہمارے لئے کافی مہنگی پڑتی ہے ہمارے ملک کی پیداوار اور درآمدگی کھاد کی قیمت میں بڑا تفاوت ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "منصوبہ کے وجود میں آنے کی وجوہات" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ