پاکستان میں منڈیاتی نظام
پاکستانی منڈیوں کی خصوصیات ⇐ پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے اور دیگر پسماندہ ممالک کی طرح ہمارے ملک کی منڈیوں میں بھی کئی قسم کی تا کاملیات اور خامیاں پائی جاتی ہیں جو ملک کی تیز تر معاشی ترقی میں رکاوٹ پیدا کرتی ہیں تاہم قیام پاکستان سے لیکر اب تک حکومت پاکستان نے ان خامیوں کو دور کرنے کے لئے بہت کچھ کیا ہے۔ تاہم ابھی اس ضمن میں اصلاح کی کافی گنجائش موجود ہے۔
- اشیا کی
- زرعی اجناس کی منڈیاں
- صنعتی اشیاء کی منڈیاں
- عاملین پیداوار کی منڈیاں
- بازار را در بازار سرمایه
- بازار اور سرمایہ کی منڈی
زرعی اجناس کی منڈیاں خزاں – 2007ء
پاکستان اب بھی بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ ہماری خام گھر یلو پیداوار کا پورا تقریباً 30 فیصد حصہ زرعی پیداوار پر مشتمل ہے۔ زرعی اجناس نہ صرف یہ کہ ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی کی خوراک کی ضرورت کرتی ہیں۔ بلکہ بہت سی صنعتوں کے لئے خام مال بھی مہیا کرتی ہے۔ نیز برآمد کے لئے فاضل مال بھی ان سے ہی حاصل ہوتا ہے۔ علاوہ ازیں ملک کی 54 فیصد آبادی زرعی پیشوں سے روزی کماتی ہے اور ملک کی تجارتی اور صنعتی ترقی کا دارو مدار بھی یدی حد تک زرعی ترقی پر ہے۔ ہماری زرعی منڈیاں مندرجہ ذیل خامیوں کا شکار ہیں۔
درجہ بندی کا فقدان
زرعی منڈیوں میں زرعی اجناس کی درجہ بندی نہیں ہوتی جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ محمدہ جنس بھی ناقص جنس کے بھاؤ بکتی ہے، حالانکہ اگر درجہ بندی ہو جائے تو کاشتکار کو زیادہ قیمت وصول ہوسکتی ہے۔
درمیانی واسطوں کی کثرت
ہمارے ہاں درمیانی واسطوں کی کثرت ہے۔ یعنی کا شکار اور خریدار کے درمیان بہت سے لوگ پیداوار میں سے اپنا حصہ وصول کرنے آجاتے ہیں ۔ جن میں کمیشن ایجنٹ ، آڑھتی ، دلال بھینس تو لئے والے، حساب کرنے والے، چوکیدار، جھاڑو بردار اور حقہ وغیرہ شامل ہیں۔ اس طرح کسان کو اپنی پیداوار کی بہت کم مالیت وصول ہوتی ہے۔
گوداموں کی قلت
غیر منظم منڈیوں میں گوداموں کی بھی قلت ہے کہ جہاں کاشتکار اپنی جنس کا ذخیرہ کر سکیں اور نرخ بہتر ہونے کا انتظار کر لیں۔ چونکہ جس کے جلد خراب ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ اس لئے کا شکار سے جلد فروخت کرنا چاہتا ہے۔
کسان کی مقروضیت
کسان کی قوت انتظام اس لئے کم ہوتی ہے کہ اسے فصل کو بچ کر اپنا پرانا قرضہ چکانا ہوتا ہے۔ اکثر تو ایسے ہوتا ہے کہ جن لوگوں سے اس نے قرض لیا ہوتا ہے وہ اس شرط پر ہوتا ہے کہ انہی لوگوں کے ہاتھ کم نرخ پر غلہ فروخت کیا جائیگا۔
باٹوں اور پیمانوں کا غیر معیاری ہونا
غیر منظم منڈیوں میں غیر معیاری بات اور پیا نے استعمال ہوتے ہیں جن کے ذریعہ انوں اور ان کا داری یا تی کا موں میں میر میری اور بیان استعمال ہوتے ہیں جن کے ذریعہ کا شکار سے زیادہ فصل حاصل کر لی جاتی ہے لیکن دام تھوڑی فصل کے دیئے جاتے ہیں۔
ذرائع حمل ونقل کا ناقص ہونا
دیہات کو شہروں کی منڈیوں سے ملانے والی سڑکیں زیادہ تر چکی ہوتی ہیں جو بارش کے دنوں میں تو بالکل نا قابل استعمال ہوتی ہیں۔ اس طرح کا شکار اپنی جنس گاؤں میں ہی کسی بیو پاری کے ہاتھ فروخت کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔
زرعی منڈیوں کی اصلاح
کاشتکار کو اپنی جس کی صحیح قیمت دلانے کے لئے ماضی میں کئی اقدامات کئے گئے جو درج ذیل ہیں۔
منظم منڈیوں کا قیام
یہ ایسی منڈیاں ہیں جن میں زرعی اجناس کی فروخت با قاعدہ حکومت کے نافذ کردہ قوانین اور ضابطوں کے تحت ہوتی ہے۔ اس قسم کی منڈیوں کے قیام کے لئے ملک کے مختلف صوبوں میں وقافو قا قوا میں منظور کئے گئے۔ پنجاب زرعی پیداوار کی فروخت کا قانون 1939ء میں منظور ہوا جس کی ردے۔ منڈی کے علاقے میں ایک مارکیٹ کمیٹی قائم کی جاتی ہے جس میں تمام فریقوں یعنی کا شکاروں، کمیشن ایجنٹوں، تاجروں اور حکومت کے نمائندوں کو شامل کیا جاتا ہے۔ مارکیٹ کمیٹی دلالوں کو نا جائز کارروائیوں کی باز رکھتی ہے۔ منڈی میں صحیح بات اور پیمانے استعمال کرواتی ہے اور جھگڑوں کا تصفیہ کرواتی ہے۔ اس قانون کے مطابق دلالوں اور منڈی میں کام کرنے والے کارندوں کے لئے لائسنس حاصل کرنا ضروری ہے۔ گویا ایک منتظم منڈی میں کا شکار کو اپنی فصل کے صیح دام ملتے ہیں اور وہ کئی قسم کی زیادتیوں اور بدعنوانیوں سے محفوظ رہتا ہے۔
تعاونی فروخت کی انجمنوں کا قیام
اگر ایک گاؤں کے سب کا شکار ملکر ایک تعاونی فروخت کی انجمن بنالیں اور اپنی جنس اس انجمن کے حوالے کر دیں، وہ انجمن اس کی بالآخر فروخت کا بندوبست کریگی۔ اس طرح کسان درمیانی واسطوں کی محفوظ زیادتیوں سے رہے گا اور اسے اپنی جس کے صیح دام ملیں گے۔ پنجاب تعاونی انکوائری کمیٹی 1955ء نے پنجاب کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے تجویز پیش کی ھی کہ ابتدائی انجمن گاؤں کی سل پر کاشت کار کی پیداوار کی فروخت کا انتظام کر یں۔ ان منڈیوں کا الحاق ثانوی اداروں سے ہوگا جوزری اجناس کی بالآ خر فروخت کا انتظام کریں گے۔
دیگر اقدامات
حکومت پاکستان نے اس ضمن میں چند اہم اقدامات کئے تھے۔
بڑی بڑی زرعی اجناس مثلاً گندم، چاول اور کپاس کی خریداری قیمت
حکومت خود مقرر کرتی ہے اور ان جناس کو خرید کر گوداموں میں رکھ لیتی ہے۔ گندم تو اس لئے خریدتی ہے تا کہ عوام کوراشن ڈیپوؤں کے ذریعے معقول قیمت پر آنا فراہم کرے۔ کرکے کا چاول اور کپاس کی خریداری اس لئے کرتی ہے کہ ان اجناس کو برآمد کر کے قیمتی زر مبادلہ حاصل کر سکے۔ اس طرح کا شتکاروں اور صارفین کے مفادات کا تحفظ ہو جاتا ہے۔
1973میں پاکستان ایگریکلچرل سٹوریج اینڈ سروس کارپوریشن
یعنی پاسکو کا قیام عمل میں لایا گیا۔ اس کارپوریشن کے قیام کا مقصد یہ تھا کہ زرعی اشیا کے لئے گودام کو مداخل یعنی کھادی اور کا اندرز تعمیر کئے جائیں۔ کسانوں کو زرعی مداخل یعنی کھا دیچ اور دیگر لوازمات کا شتکاری مہیا کئے جائیں اور ملک کے اندر زرگی ساز و سامان کی تیاری کا بندو بست کیا جائے ۔
نیشنل لاجسٹک سیل
نے 81-1980ء کے دوران ملک میں ایک لاکھ چالیس ہزار شن عملہ ذخیرہ کرنے کے کے لئے گودام تعمیر کئے۔ علاوہ ازیں یہ ادارہ پنجاب اور سندھ میں پانچ لاکھ ٹن گندم ذخیرہ کرنے میں ایک کے لئے بھی گو دام تعمیر کر رہا ہے۔
اب ملک کے تجارتی بینکوں
اور نے چھوٹے کاشتکاروں کو ہزاروں روپے کی مالیت تک بلا سود قرضے دینے شروع کر دیئے ہیں اس سے ان کی قوت انتظار بڑھ جائے گی اور کسان فوری طور پر اپنی فصل بیچ دینے کے لئے مجبور نہ ہوں گے۔
صنعتی اشیاء کی منڈی
پاکستانی معیشت کا دوسرا یہ شعبہ صنعت ہے۔ ہماری خام قومی پیداوار کا 16 فیصد حصہ صنعتی اشیاء پرمشتمل ہوتا ہے۔ چند صنعتی اشیاء کی پیداوار اور ان کی تجارت بھی ملک کی معاشی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ صنعتی اشیاء کی تجارت ہمارے ملک میں مندرجہ ذیل خصوصیات کی حامل ہے۔ چند بنیادی اہمیت کی صنعتوں کے علاوہ جن میں سامان دفاع تیار کرنے کی صنعت ، بھاری انجینئر نگ کی صنعت فولاد کی صنعت اور چند ایک اشیائے صرف جن میں بجلی وغیرہ شامل ہیں باقی تمام صنعتی اشیا کی پیداوار اور تجارت تھی لوگوں کے ہاتھ میں ہے۔ صنعتی اشیاء بڑے پیانے پر بھی تیار کی جاتی ہیں اور چھونے پیانے پر بھی۔ چھوٹے پیمانے کے تاجروں اور منگاروں کو بڑے پیمانے کے صنعتکاروں سے مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ لہٰذا انہیں اپنی اشیاء کی مناسب قیمت حاصل کرنے میں دشواری ہوتی ہے۔ تھوک تاجر کار خانے داروں سے اشیاء خریدتے ہیں اور پرچون تاجروں کے ہاتھ فروخت کر دیتے ہیں۔ عام صارفین اپنی روز مرہ ضرورت کی اشیاء پر چون فروشوں سے خریدتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بڑے پیمانے کی صنعت و تجارت میں اجارہ دارانہ مقابلہ پایا جاتا ہے۔ حالیہ برسوں میں مصنوعات کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا گیا ہے جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ ہمارے تاجر طبقہ میں نفع خوری کار، تخان قدرے زیادہ ہے۔ صنعتی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ اس لئے بھی ہوا کہ معتوں سے لئے اشیائے سایہ اور خام مال زیادہ تر درآمد کیا جاتا ہے جس کی قیمتیں بین الاقوامی افراط زر کے سبب برابر بڑھ رہی ہیں۔ ملک کے اندر تاجر طبقہ کے نفع خوری کے رجحان کوکم کرنے کے لئے اور عوام کو اشیائے صرفی مناسب قیمتوں پر میلا لئے کرنے کی غرض سے حکومت نے ایک یوٹیلٹی اسٹورز کارپوریشن قائم کی ہے جس نے بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں اس وقت تک 4500 یوٹیلیٹی اسٹور قائم کئے ہیں۔
عاملین پیداوار کی منڈی
عاملین پیداوار کی منڈی سے مراد وہ منڈی ہے جس میں زمین محنت ، سرمائے اور تعظیم کے مالک اپنی خدمات عمل پیداوار میں استعمال کے لئے فروخت کرتے ہیں ۔ پاکستان میں یہ بھی اشیاء کی منڈی کی طرح کئی خامیوں کا شکار ہے۔ زرعی شعبے میں زمین کا بہت بڑا حصہ چند بڑے بڑے زمینداروں کی ملکیت ہے اور زمیندار پیداوار کا ایک بہت بڑا حصہ ہتھیا لیتے ہیں۔ 1959ء اور 1972ء میں زرعی اصلاحات کے ذریعہ اس خامی کو دور کرنے کی کوشش کی گئی لیکن زرعی اصلاحات پر عملدرآمد کی رفتار کافی است رہی ہے۔ محنت کی منڈی بھی غیر مکمل ہے کیونکہ ہمارے ملک میں افرادی قوت کی بہتات ہے یعنی محنت کی خدمات کی رسد بہت زیادہ ہے۔ جبکہ زرعی اور صنعتی شعبے میں ان کی طلب نسبتا کم ہے۔ پھر منت کش افراد اپنی محنت کا ذخیر ہ نہیں کر سکتے ، اس لئے انکی قوت سودا بازی بھی کمزور ہے۔ لہذا انہیں اپنی محنت کا صیح صدا نہیں اور پاکستان میں اجرتوں کی سطح کافی پست ہے۔ اس خامی کو دور کرنے کے لئے بعض صنعتوں میں کم از کم اجرت کا قانون نافذ کیا گیا ہے۔ نیز مزدور انجمنوں کے ذریعہ ان کا اجتماعی سودا بازی کا حق بھی تسلیم کیا گیا ہے۔ محنت کی نقل پذیری بھی کم ہے جس کے اسباب میں تعلیم وتربیت کی کی روزگار کے مواقع سے نا واقلیت ، ذرائع حمل نقل کا ناقص ہوتا اور قناعت پسندی وغیرہ شامل ہیں۔ تاہم حالیہ برسوں میں یہ جمود ٹوٹ چکا ہے اور ہمارے ملک کے مرد دور نہ صرف یہ کہ دیہات سے شہروں کی جانب تیزی سے منتقل ہو رہے ہیں بلکہ بیرون ملک جا کر ملازمتیں کر رہے ہیں اور کثیر مقدار میں زرمبادلہ کما کر اورملک کو بھیج کر قوم کی معاشی ترقی میں بھر پور حصہ لے رہے ہیں۔ سرمائے کی منڈی بھی خامیوں سے خالی نہیں جیسا کہ آگے سیکشن 36 میں تفصیلی بحث کی جارہی ہے۔ (۷) ہمارے ملک کے آجر طبقہ میں راتوں رات دولت مند بنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لئے وہ صرف ان کاموں پر رو پید لگاتا ہے جہاں سے اسے فوری اور بہت زیادہ نفع کمانے کی امید ہو۔ ہمارے ملک کی عاملین پیداوار کی خدمات کی منڈی میں سب سے اہم رکن محنت ہے کیونکہ ہمارے ملک کی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور اسکے نتیجہ میں افرادی قوت میں ہر سال تقریبا سات لاکھ افراد کا اضافہ ہو جاتا ہے جن کے لئے روزگار کے مواقع اسی صورت میں پیدا کئے جاسکتے ہیں جبکہ اس منڈی کو زیادہ سے زیادہ متظلم اور مربوط بنایا جائے اور اعلیٰ پیداوار میں ایسے طریقے اختیار کئے جائیں جو زیادہ جاذب محنت ہوں۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "پاکستانی منڈیوں کی خصوصیات" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ