پاکستان میں آبادی کی تقسیم

آبادی کی تقسیم بلحاظ عمر

پاکستان میں آبادی کی تقسیم پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ کے نتیجے میں آبادی میں بچوں کا کا سب زیادہ کیونکہ بچوں میں اموات کی  زیادہ ہے اور نہ اور بچے 15 برس کی عمر سے پہلے ہی فوت ہو جاتے ہیں ۔ 1961ء کی مردم شماری کے مطابق پدرو جہاں سے کم عمر کے بچے کل آبادی 430 بعد تھے ۔ 1998 ء کی مردم شماری کے مطابق دائیں سے کم عمر بچوں کی تعداد کل آبادی کا 40 43 فیصد تھی۔ آبادی کی تقسیم لحاظ کر کے معاشی اثرات: برس سے کم عمر کے بچے عام طور پر معاشی جد و جہد میں حصہ لینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ چونکہ یہ آبادی کا ایک بہت بڑا حصہ میں اس لئے معیشت آبادی کے اتنے جوڑے حصے کی خدمات سے محروم ہو جاتی ہے۔ اگر اس تعداد میں ان بوڑھوں کو بھی شامل کر دیا یا ہے جو 65 پروں سے اوپر کی عمر کے ہیں تو مجموعی طور پر آبادی کا نصف حصہ موثر افراد ی قوت کی فہرست سے خار لیکن اسی پر بس نہیں کی نصف آبادی جو 15 ہیں اور 64 برس کے درمیان ہے اس میں تقریبا نصف تعداد عورتوں کی ہے۔ یہ طبقہ کی ان میں سوائے تعلیم اور صحت کے شعبوں کے باقی معاشی سرگرمیوں میں کوئی قابل ذکر حصہ نہیں لیتا۔ اس صورت حال میں کوئی شک نہیں کر دیہی علاقوں میں صور نہیں بھی بھیتی باڑی کے کام اور گھر یلو دستکاری میں مردوں کا ہاتھ بٹاتی ہیں اور گھر یلو عورتیں شہروں اور دبیات میں گھر کے بہت سے کام کاج جن میں کھانا پکا ہر بیٹا پردا اور دیگر امور خانہ داری شامل ہیں دسر انجام دیتی ہیں لین اس کے باوجود عورتوں کا حصہ موثر معاشی سرگرمیوں میں کافی کم ہے۔ پاکستان کی آبادی میں سے اگر بچوں، بوڑھوں اور غیر فعال مورتوں کو خارج کر دیا جائے تو موثر افرادی قوت گھٹ جاتی ہے۔ پاکستان میں محصر ین (دو لوگ جو خود دولت پیدا نہیں کرتے یا کر سکتے لیکن دوسروں کی کمائی سے اپنا حصہ وصول کرتے ہیں  کی تعداد ماضی میں بہت زیادہ تھی یعنی ہر سو افراد میں سے صرف 30 افراد کام کرتے ہیں اور باقی 70 افراد ان کی کمائی پر گزر بسر کرتے تھے۔ اس طرح کھانے والے افراد پر پر جھول یادہ تھا۔ موثر افرادی قوت کی کی کے سبب قومی وسائل کا بھر پور استعمال نہیں اور ہا تھا۔ جس کے نتیجہ میں قومی پیداوار کم حاصل ہوتی تھی لیکن موثر افرادی قوت موجودہ دور میں بڑھ رہی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں جن میں بر طانیہ اور فرانس جیسے ممالک شامل ہیں نماز آبادی کل آبادی کے نصف سے بھی زیادہ ہے۔ محصر ین کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے دولت کی پیداوار کم ہے لیکن دولت کا مصرف زیادہ ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ سرمایہ کاری کے لئے کم دولت بہتی ہے۔ گھر یلو بہت کی کی کو پورا کرنے کے لئے بیرونی ممالک سے رقعیں قرض لینا پڑتی ہیں۔ اس وقت پاکستان باقی دنیا کا مقروض ہے۔ یہ بیرونی قرض ہماری معیشت پر بہت بڑا ہجھ ہے۔

پاکستان میں آبادی کی تقسیم

آبادی کی تقسیم بلحاظ جنس

پاکستان کی آبادی میں مردوں کی تعداد عورتوں کی نسبت زیادہ ہے اس کی دو وجوہات ہیں عورتوں میں شرح اموات مردوں کی نسبت زیادہ ہے  مردم شماری کے وقت عورتوں کو رجسٹر کروانا معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ذیل میں ایک گوشوارہ دیا گیا ہے جو 1998ء کی مردم شماری کے مطابق پورے پاکستان کے لئے اور ملک کے چاروں صوبوں کے لئے جنس کے اعتبار سے آبادی کی تقسیم کی وضاحت کرتا ہے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں میں مردوں کی تعداد عورتوں کی نسبت زیادہ ہے۔ فیڈرل پینٹل امر یا اسلام آباد میں یہ تناسب سب . سے زیادہ ہے کیونکہ وہاں ہر ایک سو عورتوں کے مقابل 117 مرد موجود ہیں اس کا سبب یہ ہے کہ یہ شہری علاقہ ہے اور شہری علاقوں میں مردوں کا تناسب عورتوں سے زیادہ ہوتا ہے۔ اس کا بڑا سبب یہ بھی ہے کہ کافی بڑی تعداد میں مرد دیہات سے روزگار کے لئے شہر منتقل ہو جاتے ہیں جبکہ وہ اپنے کنبوں کو دیہات میں ہی رہنے دیتے ہیں لیکن معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ اب کنبوں سمیت شہروں کی جانب نقل مکانی کر رنجان بڑھ رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں طبی سہولتوں کی بہتری سے عورتوں کی شرح اموات میں کمی واقع ہوئی ہے جس کے نتیجہ میں اب ملک کی آبادی میں عورتوں کا تناسب بڑھ رہا ہے۔

آبادی کی تقسیم بلحاظ خواندگی

ماہرین معاشیات کی رائے میں افرادی قوت کی تعداد سے بھی زیادہ افرادی قوت کی استعداد کار کا اعلیٰ معیار معاشی ترقی کی رفتار کو تیز کرنے کا موجب بنتا ہے اور کام کرنے والی آبادی کی استعداد کا دارو مدار بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ وہ کس قدر تعلیم یافتہ اور ہنر مند ہے، دور حاضر کے علوم وفنون سے کس حد تک شناسا ہے اور جدید ٹیکنالوجی سے کس حد تک بہرہ ور ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان ابھی اس میدان میں بہت پیچھے ہے۔ 1961ء کی مردم شماری کے مطابق ہر وہ شخص خواندہ سمجھا گیا جو ایک سادہ قسم کی عبارت پڑھ سکے اور سمجھ سکے۔ اس لحاظ سے مجموعی پاکستان میں صرف 15.9 فیصد آبادیv خواند تھی۔ مغربی پاکستان میں 13.5 فیصد اور مشرقی پاکستان میں 17.6 فیصد۔ 5-

بلحاظ تعلیم اور معاشی ترقی

معاشی ترقی کے لئے جہاں مادی تشکیل سرمایہ ضروری ہے وہاں غیر مادی تشکیل سرمایہ بھی اتنا ہی اہم ہے۔ مادی تشکیل سرمایہ سے یہ مراد ہے کہ پیداوار کو بڑھانے کے لئے کارخانوں کی عمارت تعمیر کرنا ہمشینیں اور آلات بنانا، سڑکیں اور ریلی بنانا اور آبپاشی اور کل کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا۔ جبکہ غیر مادی تشکیل سرمایہ سے یہ مراد ہے کہ ملک کی افرادی قوت کو زیور تعلیم سے آراستہ کر کے اس کی استعداد کار میں اضافہ کرنا بالخصوص سائنس اور فنی تعلیم سے لوگوں کو بہرہ ور کرتا، تا کہ وہ مادی تشکیل سرمایہ کی رفتار کو تیز کرسکیں ۔ جدید دور کی ٹیکنالوجی سے واقفیت کتنی ضروری ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جرمنی اور جاپان کا مادی سرمایہ کارخانے مشینیں اور آلات تباہ و برباد ہو گیا تھا ان مادی سربا جی با لیکن ان کا غیر مادی سرمایہ اب بھی باقی تھا یعنی وہ لوگ اب بھی زندہ تھے جو جدید علوم وفنون کے ماہر تھے۔ ان لوگوں نے انتھک محنت اور جد و جہد سے پانچ سے دس سال کے قلیل عرصہ میں ایک بار پھر اپنے ملکوں کی معیشتوں کو از سر نو مضبوط بنادیا اور آج پھر یہ تو میں دنیا کی چوٹی کی معاشی طاقتوں میں شمار ہوتی ہیں۔ پس ہمارے ملک کے لئے بھی یہ بات انتہائی اہم ہے کہ وہ کم سے کم عرصہ اپنے سے نا عرصہ میں اپنے ہاں سے جہالت و نا خواندگی کا قلع قمع کرے اور اپنے ملک کے تقاضوں کے مطابق ٹیکنالوجی کو فروغ دے۔ تا کہ ہمارے ملک میں زرعی اور صنعتی انقلاب رونما ہو اور ہم جلد از جلد دنیا کی ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل ہوں۔

آبادی کی تقسیم بلحاظ شہری و دیہاتی

صنعتی ترقی کے ساتھ ساتھ جہاں پہلے سے موجود شہروں کی جانب نقل مکانی میں اضافہ  ہوا ہے وہاں کئی نئے شہر بھی وجود میں آئے ہیں اور دیہات سے شہروں کی جانب نقل مکانی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ 1972ء اور 1998ء کے درمیان پاکستان کی شہری آبادی 25.4 فیصد سے بڑھ کر 32.5 فیصد ہوگئی جبکہ دیہاتی آبادی 74.6 فیصد سے گھٹ کر 67.48 فیصد رہ گئی ۔ باور کیا جاتا ہے کہ اس وقت پاکستان کی کل آبادی تقریبا 35 فیصد شہروں میں اور تقریباً 65 فیصد دیہات میں آباد ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے دس بڑے شہروں میں کل شہری آبادی کا زیادہ تر حصہ ۔ آباد ہے ۔ ان بڑے شہروں میں سب سے زیادہ اضافہ کراچی کی آبادی میں ہوا جو 3.49 فیصد ہے کراچی کی آبادی جو 1981ء میں 52 لاکھ تھی 1998ء میں بڑھ کر تقریباً 93 لاکھ تک پہنچ گئی یعنی 16 سال کے عرصہ میں 237 فیصد اضافہ ہوا ۔ اس کے بعد صوبائی دار الحکومتوں کا نمبر آتا ہے۔ لاہور کی آبادی میں 3.32 فیصد، کوئٹہ کی آبادی میں 4.09 فیصد اور پشاور کی آبادی میں 4.93 فیصد کا اضافہ ہوا۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "پاکستان میں آبادی کی تقسیم"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment