پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اسباب

پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اسباب ⇐ حکومت کے مختلف اقدامات کے باوجود پاکستان میں انسانی حقوق کی صورتحال ابھی تک تسلی بخش نہیں ہے ۔

پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اسباب

تقدس

ذہن میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر رحمۃ العالمین  پر ایمان لانے والے اور ان کے تقدس اور ناموس پر جان نچھاور کرنے والے معاشرے میں اتنے وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیوں ہوتی ہیں؟ اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے چند بنیادی وجوہات درج ذیل ہیں۔ ان کا جاننا ہمارے لئے ضروری ہے۔

ذہنی غلامی کا طوق

خدا کا لاکھ شکر ہے کہ ہمیں آزادی کی نعمت میسر ہے لیکن ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے قیام سے پہلے سالہا سال غلامی کی زندگی بسر کرتے رہے ہیں۔

انسانی حقوق کا تحفظ

انگریز چلا گیا لیکن جاگیرداری اور وڈیرا شاہی کی شکل میں اس کے کارندے ابھی موجود ہیں ۔ آج بھی زمینداروں جاگیرداروں اور وڈیروں کے ملازم اور ہاری غلاموں سے بھی بدتر زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ ان کے انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے ضروری ہے کہ انہیں اس غلامی سے نجات دلائی جائے۔

غربت اور بیروزگاری

کسی بھی ترقی پذیر ملک کیلئے غربت مفلسی اور بیروزگاری سب سے بڑی محرومی ہے ۔ دو وقت کی روٹی کیلئے ایک غریب کو بہت پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔

سازگار حالات

اس کو خون پسینہ ایک کرنا ہوتا ہے اگر سازگار حالات میسر نہ ہوں تو وہ سختیاں جھیلنے کی بجائے تشدد کرنے پر اتر آتا ہے ۔ یونیورسٹی سے اعلیٰ سند حاصل کرنے والے نوجوان کو اگر برسوں روزگار نہ ملے تو تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ہاتھ میں کلاشنکوف تھامے وہ مجرمانہ زندگی بسر کرنے سے باز نہیں آئے گا۔

 تعلیم کی کمی

تعلیم کی سہولیات میں کمی کا ابھی تک خاطر خواہ تدارک نہیں کیا گیا۔ شرح خواندگی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کے انتہائی کم پڑھے لکھے ملکوں میں سے ایک ہے۔

 تعلیم کی کمی

درس و تدریس کا سلسلہ

دیہات میں سینکڑوں ایسے سکول ہیں جہاں کوئی عمارت نہیں اور درس و تدریس کا سلسلہ کھلے آسمان کے نیچے مٹی کے فرش پر جاری رکھا جاتا ہے اور سینکڑوں سکول ایسے ہیں جن کی عمارتیں خستہ حالت میں ہیں۔ میلوں پیدل چل کر بچے سکول آتے ہیں تو وہاں انہیں مضامین پڑھانے کیلئے استاد نہیں ملتے۔

خواندگی

تعلیم ہی تو ہے کہ جو ہمیں برے بھلے کی تمیز سکھاتی ہے۔ ہمارے ملک میں 46 فیصد شرح خواندگی کا مطلب یہ ہے کہ 54 فیصد لوگ جاہل مطلق ہیں جو انسانی حقوق کی نگہداشت کرنے کی اہلیت نہیں رکھ سکے۔

 دین سے دوری اور نا واقفیت 

ملک میں تعلیم عام ہوگی تو لوگ اسلام کے زرین اصولوں سے بھی کما حقہ واقف ہوسکیں گے ۔ فی الحال تو ہمارے عوام کی اکثریت مسلمان ہونے کے باوجود اسلام کے تقاضوں سے کوسوں دور ہے ۔

مشعل راہ

اخوت الفت بردباری اور رواداری کی درخشاں مثالیں جو ہمارے اسلاف نے قائم کیں وہ آج ہمارے لئے مشعل راہ ہوسکتی ہیں۔ بشرطیکہ ہم ایمان کی دولت سے مالا مال ہوں اور قرآن وحدیث کا بغور مطالعہ کریں۔ ایک ایسی حقیقت جو ہمارے آئین کا نکتہ آغاز ہے۔

اجتماعی خرابیوں کا باعث

ہماری نظروں سے یکسر اوجھل ہے۔ اس کو بھلا دینا ہماری سب سے بڑی خامی اور ہماری انفرادی اور اجتماعی خرابیوں کا باعث ہے۔

ہم نے مقتدر اعلیٰ کی حیثیت کو تبدیل کر دیا ہے۔

ہمارے آئین کے شروع میں ہی یہ واضح الفاظ میں درج ہے کہ

تمام کا ئنات کا اقتدار اعلی خدا کے پاس ہے اور

پاکستان کے عوام کے پاس یہ اختیارات ایک مقدس امانت ہیں۔

انسانی حقوق کا مسئلہ

جنہیں وہ اللہ تعالی کی مقرر کردہ حدود کے اندر رہتے ہوئے بروئے کار لا ئیں گے۔” اگر ہم مل کر اس حقیقت کو دل و جان سے قبول کر لیں تو ہماری مشکلات دور ہو جا ئیں ہمارے سارے مسائل حل ہو جائیں اور انسانی حقوق کا مسئلہ ہمارے لئے کوئی مسئلہ نہ ر ہے گا۔

نا انصافی اور حصول انصاف میں تاخیر

نا انصافی اور حصول انصاف میں تاخیر در اصل ایک ہی چیز کے دو مختلف نام ہیں ۔ ہمارے نظام عدل کا طریق کار کچھ ایسا مشکل ہے کہ اس میں اصلاح کی بہت ضرورت ہے۔ مظلوم کو اگر وقت پر انصاف نہ ملے گا تولا محالہ وہ مایوسی کا شکار ہوگا ۔

نا انصافی اور حصول انصاف میں تاخیر

انصاف

حکومت وقت کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ ہر مظلوم کیلئے فوری انصاف کا بندو بست کرے اور ظالم کیخلاف دہائی دینے والے کی داد رسی کی جائے ۔ جس معاشرے میں ظلم حد سے بڑھ جائے اور پھر انصاف میں تاخیر ہو اس کا شیرازہ بکھر جاتا ہے۔

غیر انسانی قوانین

ہماری ایک بہت بڑی خامی وہ دقیانوسی قوانین ہیں جنہیں انگریزوں نے اپنے مفاد کیلئے لاگو کیا تھا۔ ہماری بھلائی اس میں ہے کہ جس قدر جلد ممکن ہو ہم دفعہ 144 جسے قوانین سے چھٹکارا حاصل کر لیں۔

قوانین

لوگوں کا اپنے حقوق کے حصول کیلئے باہر نکلنا اور اکٹھے ہونا جرم نہیں۔ لوگوں کو ظالمانہ قوانین کے شکنجےمیں کسنے کی بجائے ان کے حقوق کی فراہمی ریاست کا فرض ہے۔ لہذا سکیورٹی کے نام پر بننے والے تمام کالے قوانین کا خاتمہ ضروری ہے۔

ذرائع ابلاغ پر پابندی

اگر حالات حاضرہ سے واقفیت کیلئے اپنے ذرائع ابلاغ سے ہمارا اعتماد اٹھ جائے تو صحیح حالات سے باخبر ہونے کیلئے لامحالہ ہم غیر ملک الیکٹرانک میڈیا کی طرف رجوع کریں گے اگر ہم جمہوری اقدار کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے ضروری ہے کہ ارباب اقتدار اپنی روش بدلیں ۔

 سیاسی رواداری کا فقدان

جمہوریت سیاسی رواداری سے پھلتی پھولتی ہے ۔ جولوگ سیاسی اختلاف کو ذاتی مخالفت کا روپ دے کر تشدد پر اترتے ہیں وہ جمہوریت نہں انتشار کے علمبردار ہیں۔ عوامی اور حکومتی دونوں سے پر یہ لازم ہے کہ سیاسی اختلاف کو بھی مخالفت کا رنگ نہ دیا جائے بلکہ برداشت اور رواداری کی اعلیٰ اقدار کی پاسداری کی جائے۔

 مذہبی انتہا پسندی

مذہب اور دین کے معاملے میں بھی انتہا پسند نہیں ہونا چاہیے جو اسلام سے گہرا شغف رکھتے ہیں انہیں معلوم ہے کہ چھوٹے موٹے اختلافات کی کوئی دقعت نہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم کبھی اپنا عقیدہ نہ چھوڑیں اور دوسروں کے عقیدہ کونہ چھیڑیں ۔

علمائے کرام

ہمارے ہاں مذہبی انتہا پسندی بھی انسانی حقوق کو پامال کرنے کا باعث بنتی ہے۔ لوگ مذہب کی آڑ لے کرچھوٹی چھوٹی باتوں پرمرنے مارنے پر تیارہو جاتے ہیں ۔ علمائے کرام کو چاہیے کہ رواداری اور برداشت کی خوبیوں کی تلقین کریں اور معاشرے کو مذہبی انتہا پسندی سے نجات دلائیں ۔

ماحولیاتی آلودگی

ماحولیاتی آلودگی میں صرف دھواں غبار اور کوڑے کرکٹ کے ڈھیر ہی شامل نہیں، اس میں شور و شغب دھما کے دھما چوکڑی اور اونچی اور بے ہنگم  آواز میں گانا بجانا شامل ہے جو نہ صرف ہماری سماعت پر گراں گزرتا ہے بلکہ کانوں کے راستے ہماری ذہنی آسودگی کو بھی درہم برہم کر دیتا ہے ۔

ماحولیاتی آلودگی

اعصابی تناؤ 

ذہن پراگندہ ہو جائے تو فشار خون جیسی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں جو انسانی اعصابی تناؤ  اور بلڈ پریشرصبر و برداشت کو ختم کر دیتی ہیں جس کے نتیجے میں ظلم و تشد د جنم لیتا ہے اور انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں۔

 فرسودہ روایات

معاشرے میں ایسی ان گنت روایات اور رسوم و رواج ہیں جنہوں نے انسانی حقوق کو نقصان پہنچایا ہے۔ باپ کا اپنی بیٹی کیلئے ایسے جہیز اکٹھا کرنا کہ مقروض ہو جائے ۔

روایات

خاندان سے باہر شادی کرنا رشتے ناطے میں اولاد خصوصا بیٹیوں کے احساسات کا خیال نہ رکھنا خاندانی جائیداد کو محفوظ رکھنے کیلئے اولاد کے حقوق کو پامال کرنا ۔ یہ اور اس طرح کی دیگر فرسودہ روایات انسانی حقوق کی پامالی کا باعث بنتی ہیں ۔ ان فرسودہ روایات سے نجات کیلئے تعلیم کا عام کرنا بہت ضروری ہے۔

عورتوں کی بہبود کیلئے سرکاری اقدامات

حکومت کی طرف سے عورتوں کی مجموعی حالت سدھارنے کیلئے بھی کچھ مفید اقدامات کئے گئے ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے

ویمن بنک

فرسٹ ویمن بنک اور ایگر کلچرل ڈیویلپمنٹ بنک فرسٹ ویمن بنک  ترقیاتی بنک کے ویمن کریڈٹ پروگرام کے ذریعے محنت کش خواتین کیلئے آسان قرضوں کی سہولت فراہم کی گئی۔ دیہاتی خواتین کیلئے نرم شرائط پر قرضوں کی ایک سکیم کا اجراء کیا گیا۔

ڈیویلپمنٹ

ایگری کلچرل ڈیویلپمنٹ بنک (اے ڈی بی پی) کے ویمن کریڈٹ پرو گرام  کے تحت چھوٹے اور طویل المعیاد( ڈیڑھ سال سے 5 سال کے عرصے میں قابل واپسی ) قرضے دیئے گئے ۔ ان قرضوں کیلئے منقولہ اور غیر منقولہ جائیداد حتی کہ زیورات کو بھی بطور ضمانت قبول کر لیا جاتا ہے۔

ویمن پولیس فورس

عورتوں کی دادرسی اور ان کو فوری انصاف کی سہولت فراہم کرنے کیلئے ویمن پولیس فورس تشکیل دی گئی ہے۔

ویمن پولیس فورس

پانچ رکنی انکوائری کمیشن

خواتین کیلئے پانچ رکنی انکوائری کمیشن تشکیل دیا گیا ہے جس کے مقاصد مندرجہ ذیل ہیں۔

 خواتین کیخلاف امتیازی قوانین پر نظر ثانی کرنا۔

 موجودہ قوانین کو قرآن وسنت کے مطابق ڈھالنے کیلئے ان میں ترامیم کرنا۔

 خواتین کی حالت سدھارنے کیلئے مناسب اور ضروری اقدامات کی سفارش کرنا ۔

 خواتین کیلئے مختلف پروگرام اور سکیمیں

 نیشنل ٹریننگ ری سورس سنٹر۔

 کمپیوٹر لٹریسی پرو گرام ۔

محنت کش خواتین کیلئے ڈے کیئر سنٹر

 میڈیکل ٹیکنیکل اسٹنس پرو گرام ۔

لیگل ایڈاور پروٹیکشن سنٹرز

ٹیلیویژن

ٹیلیویژن پر خواتین کیخلاف تشدد کے متعلق ایک عوامی آگہی کی مہم اسکا با قاعدہ آغاز کر دیا گیا ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کوپاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اسباب  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

    MUASHYAAAT.COM  👈🏻  مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

……پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے اسباب     ……

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *