زرعی شعبے کی اہمیت
پاکستان میں زراعت کی اہمیت ⇐ پاکستان کی معیشت بنیادی طور پر ایک زرعی معیشت ہے۔ اسے زرعی معیشت اس لئے کہا جاتا ہے کہ ہماری معاشی ترقی کا بیشتر انحصار اسی شعبہ کی بہتر کار کردگی پر ہے۔ اس شعبہ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی دیہی آبادی کا تقریبا 5 فیصد زرعی کاموں میں مشغول رہتا ہے اور اس وقت ملک میں کام کرنے والے افراد کا تقریبا 44 فیصد حصہ اسی زرعی شعبہ میں کام کر رہا ہے اور یہیں سے اس کو اپنا اور اپنے بچوں کا رزق حاصل ہوتا ہے۔ ہماری کل قومی پیداوار میں تقریبا 21 فیصد حصہ زراعت کا ہے۔ نیز اس وقت مجموعی برآمدات میں سے تقریبا 35 فیصد حصہ زرعی شعبہ کی پیداوار پر مشتمل ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ہمارے ملک کی گھریلو صنعتوں کا مکمل دارو مدار اسی شعبہ سے حاصل ہونے والے خام مال پر ہے۔ درمیانی صنعتیں اور بھاری صنعتیں مثلا پارچہ پانی کی صنعت اور شکر سازی کی صنعت وغیر ہ بھی اسی زرعی شعبہ حاصل ہونے والے خام مال پر انحصار کرتی ہیں۔
زرعی پیداوار میں اضافہ کی شرح
اگر ہماری زرعی پیداوار میں اضافہ ہو تو ظاہر ہے ہماری ملکی معیشت پر اس کا مثبت اثر پڑے گا۔ سے اس وقت ہمارے ملک کی آبادی میں تقریباً 1.8 فیصد سالانہ کا اضافہ ہو رہا ہے۔ یا ضافہ ہمارے لئے سنگین خطرے کا الارم ہے کیونکہ جس رفتار سے ہماری آبادی میں اضافہ ہو رہا ہے اس لحاظ سے سنہ 2045ء میں ہماری کل آبادی دوگنی ہو چکی ہوگی ۔ اس طوفان کی طرح ہونے والی آبادی کے لئے رہائش اور خوراک ولباس کا مسلہ ہماری قوم کو در پیش ہوگا۔ اگر ہماری زراعت کو ترقی ندی گئی اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ نہ کیا گیا تو یقینا ہمارے لوگ تھا اور فاقوں کا شکار ہوں گے۔ اس سوچ اور فکر کے مطابق ہماری حکومت دن رات اس کوشش میں مصروف ہے کہ ایسی پالیسی مرتب کی جائے جس سے زرعی پیداوار میں اضافہ ہو اور ہماری کل قومی پیداوار کو بڑھنے میں مدد ملے۔ پچھلے چند سالوں سے زرعی شعبہ کی پیداوار میں کچھ زیادہ اضافہ نہیں ہوا۔
زرعی ترقی کے نتائج
بہارے زرعی شعبہ کو جب ترقی ملے گی تو اس سے نزدیکی اور دور رس دونوں نتائج مرتب ہوں گے۔ نزد یکی نتائج تو ظاہر ہے یہ ہوں گے کہ ہماری زرعی پیداوار میں اضافہ ہوگا۔ اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کی وجہ سے ہمارے کسان کی آمدنی بڑھے گی جس سے وہ اس قابل ہوگا کہ اپنا معیار زندگی بلند کرے اور بہتر اور اعلی قسم کی سرمایہ کاری کر کے اپنی کھیتی باڑی کو جدید آلات کاشت کاری فراہم کرے تا کہ اس کی فی ایکڑ پیداوار میں مزید اضافہ ہو۔ اگر یہ دوری چکر جاری رہے تو طویل مدت میں معیشت میں زرعی انقلاب کی بدولت سماجی و معاشرتی تبدیلیاں کھولنا ہوں گی ۔ ملک خود کفالت کے بعد زرعی اجناس کی برآمدات کی طرف قدم بڑھائے گا اور اس سے حاصل ہونے والے زرمبادلہ سے صنعتی اشیاء خرید کر ملک میں بھاری صنعتیں قائم ہوں گی۔ ملک کی بیروزگاری کی سطح کم ہو گی اور زرعی شعبہ تحکم بنیادوں پر اس طرح کھڑا ہوگا کہ ہر سطح پر معیشت کو مد دادر طاقت فراہم کر سکے۔
اہم زرعی مسائل
سیم و تھور ہمارے زرعی شعبہ کو سب سے سنگین مسئلہ جو در پیش ہے وہ سیم وتھور میں تیزی سے پھیلاؤ ہے ۔ ہماری وہ زمینیں جو کچھ عرصہ قبل زیر کاشت تھیں اور جہاں بہترین فصلیں ہوا کرتی تھیں، آج سیم و تھور کا شکار ہو کر بے کار ہو چکی ہیں ، پنجاب ، کے متعد د ضلعوں میں زمین کی یہ بیاری اتنی تیزی سے پھیلتی جارہی ہے کہ اس صوبے کی بڑی بڑی تحصیلیں اور ضلعے کے ضلعے اجاڑ ز اور بنجر ہوتے چلے جارہے ہیں۔ سیم و تھور کی سالانہ رفتار تقریبا ایک لاکھ ایکڑ ہے۔ مہینوں اور دنوں میں تقسیم کرنے کے بعد اس بیماری کے حملے کی رفتار فی منٹ کئی ایکڑ کے حساب سے لگائی گئی ہے۔ یہ ہمارے لئے نہایت غور طلب مسئلہ ہے۔ کیونکہ ایک طرف ہماری آبادی میں سنگین شرح سے اضافہ ہو رہا ہے جو دنیا میں سب سے بلند شرح اضافہ ہے اور دوسری طرف ہماری زیر کاشت زمینیں تیزی سے بے کار ہوتی چلی جا رہی ہیں ۔ غرضیکہ دونوں طرف ایک ہیبت ناک مصیبت ہماری قوم کو گھیرے میں لے رہی ہے۔
فرسودہ طریق کاشت
حالات کا تقاضا یہ تھا کہ ہمارے کاشت کار میدان عمل میں اس طرح داخل ہوتے اور طریق کاشت میں اس طرح تبدیلی پیدا کرتے کہ ان کی فی ایک پیادار بردستی مگر پوستی سے ہمارے کاشت کاراپنی روایتی طریق زندگی کو اس حد تک اہمیت دیتے ہیں کہ ان باتوں کو چھوڑنے کے لئے ہرگز تیار ہیں جوان کے آباؤ اجداد نے وراثت میں چھوڑی ہیں۔ کا شکاری کا طریقہ ابھی تک فرسودہ ہے۔ زمین میں کھاد ڈالنے اور پانی دینے کا وہی طریقہ ہے جو اب کلینتا متروک ہو چکا ہے۔ فصل کی کٹائی اور گہائی کا ایسا طریقہ ہے جس سے نقصانات بڑھ چڑھ کر ہوتے ہیں۔ معاشرتی رسوم ورواج ایسے ہیں جو ان کی معاشی اور پیدا آوری صلاحیت کو متاثر کئے بغیر نہیں رہتے۔ لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے کاشت کاروں کی زندگی میں معاشی انقلاب برپا کیا جائے ۔ ان کی سوچ کو بدلا جائے ۔ انہیں یہ باور کرایا جائے کہ ان کا ایک ایک لمحقیقی ہے اور براہ راست و با لواسطہ نقصانات سے ان کی معاشی حالت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ تمام باتیں ہمارے کسان کی سمجھ میں اس وقت آئیں گی جب اسے تعلیمی اور تربیتی کورسز سے گزارا جائے گا ۔ یہ کام ایک جانب محلہ تعلیم کی طرف سے ممکن ہے اور دوسری جانب محکمہ زراعت کے شعبہ توسیع کی مدد سے ہو سکتا ہے۔
زرعی قرضہ کی دشواری
ایک اندازے کے مطابق تقریبا 89 فیصد کاشت کار ہمارے ملک میں ایسے ہیں جن کے پاس 10 ایکڑ سے بھی کم زیر کاشت رقبہ ہے جبکہ پنجاب پیسے زرعی صوبے میں بھی معاشی اکائی 12 ایکڑ متعین کی گئی ہے۔ یعنی وہ کسان جس کے پاس 12 ایکڑ سے کم رقبہ زیر کاشت ہو اس کی معاشی انداز میں ھیتی باڑی مکن نہیں۔ ایسا کسان نہ تو بچت کر سلام ہے اور نہ ہی سرمایہ کاری کے ذریعے کسی سے فائدہ اٹھا سکتا ہے بلکہ ایسا کسان ہمیشہ مقروض رہتا ہے۔ غالباً ایسے ہی کا شکاروں کے لئے کسی نے کہا ہے کہ ہمارا کاشت کار قرضہ کی حالت میں پیدا ہوتا ہے قرضہ کی حالت میں پرورش پاتا ہے اور قرضہ کی حالت میں فوت ہو جاتا ہے۔ ایسے کاشتکاروں کو قرض کی چنگل سے آزاد کرانا از حد ضروری ہے ۔ جب تک اپنی حکومت کے متعین کردہ مالی ادارے اپنا تعاون فراہم نہ کریں گے یہ لوگ اپنی بد حال معاشی حالت کو سدھار نہیں سکتے ۔ لہذا انہیں زرعی قرضہ بینکوں کے ذریعہ ضرور ملنا چاہیے۔ ان قرضوں کی خصوصیت یہ ہے کہ بروقت فراہم ہوتے ہیں اور اسے استعمال کر کے ہمارا اور کرسکتا قرضے کاشت کار فصل کی بجائی اور کٹائی وقت پر کر سکتا ہے۔ یہ قر نے تقلیل مدت ، درمیانی مدت اور طویل مدت کے ہوتے ہیں جو ہمارے کسان کی ہر قسم کی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ہمار از رمی ترقیاتی بینک یہ قرضے ہمارے کسانوں کو کافی مقدار میں دے رہا ہے۔
کاشت کے چھوٹے اور منتشر قرضے
زرعی پیداوار میں تیزی سے اضافہ کے لئے ضروری ہے کہ مشینی طریق کاشت کو اپنایا جائے مشینی طریق کاشت کی بنیادی شرط یہ ہے کہ زیر کاشت رقبا تا برا ہو کہ ہمارا سان معاشی طور پر اس زمین پر ٹریکٹر چلا سکے۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں قانون وراثت کے طفیل کاشت کاروں کی زمین خاندانی بواروں کا شکار ہوتی جارہی ہے اور اس کے نتیجہ میں زیر کاشت رقبہ کا سائز دن بدن کم سے کم ہوتا چلا جارہا ہے۔ اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ کل کھیتوں میں سے 14 فیصد کھیت ایسے ہیں جن کا سائز ایک ایکڑ سے بھی کم ہے۔ اسی طرح مزید چودہ فیصد کھیت ایسے ہیں جن کا سائز بخش ایک یا دو ایکڑ کے درمیان ہے۔ ذرا سا آگے بڑھیں تو ہمیں 15 فیصد کھیت ایسے ملیں گے جن کا سائز 2 سے 13ایکڑ کے درمیان ہے اور تین سے 15ایکڑ کے درمیانی سائز کے فارم کی تعداد 25 فیصد ہے۔ اس طرح 15 ایکڑ تک سائز کے فارم کی مجموعی تعداد ے پر تو 68 فیصد بن جاتی ہے یہ سارے فارم مشینی کاشت کے لئے غیر موزوں ہیں۔ ان پر اگر مشینی کاشت کی جائے تو سراسر نقصان ہو گا۔ اور اگر دیسی کاشت کی جائے تو پیداوار میں خاطر خواہ اضافہ نا ممکن ہے۔ گویا کہ زمین کے چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم ما ہو جانے کی وجہ سے ہماری زراعت کو شدید دشواری لاحق ہے۔ اس دشواری سے نبرد آزما ہونے کے لئے صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ انجمن امداد باہمی کے تحت تعاون کاشت کاری کا طریقہ رائج کیا جائے جس سے کھیتوں کے سائز بڑے ہوسکیں مگراس لاحقمیں اور ان پر مشینی کھیتی باڑی کی جاسکے۔ مگر اس کام میں بھی کئی دشواریاں لاحق ہیں مثلاً ہمارا کاشتکار آپس میں ایسی دشمنی رکھتا ہے کہ وہ اپنے پڑوی کاشت کار کے ساتھ اپنی زمین شامل کر کے کام کرنا پسند نہیں کرتا ۔ پھر یہ بھی دشواری ہے کہ اگر زمینوں کو ایک جگہ کر بھی لیا جائے تو ان پر کام کرنے کے لئے محنت اور سرمائے کا موزوں ذخیرہ اور پھر موزوں تقسیم کار بھی نہیں ہونے پاتی ۔ اس طرح یہ اسکیم نا کامی کا شکار بن چکی ہے۔
ناقص نظام منڈی
کاشت کار کی اپنی کیتی باڑی میں وجمعی اس وقت زیادہ ہو سکتی ہے۔ جب اس کی محنت کا اسے صیح معاوضہ لے صحیح معاوضہ کے لئے بنیادی شرط یہ ہے کہ جب کاشت کار اپنی اصل کو مارکیٹ میں فروخت کرنے کے لئے جائے تو اسے صحیح قیمت پر فروخت کر سکے۔ مگر ہمارے منڈی کے نظام میں درمیانی ایجنٹ اتنے زیادہ تعداد میں ہوتے ہیں کہ کا شکار ان کی لوٹ کھسوٹ کا شکار ہو جاتا ہے۔ آڑھتی ، بیوپاری، دلال اور اس قسم کے کئی دوسرے ایجنٹوں کے ہاتھوں ہمارے کسان کو گزرنا پڑتا ہے جس کے بغیر اس کا مال منڈی میں فروخت نہیں ہو پاتا۔ یہ لوگ اتنے شاطر اور چالاک ہوتے ہیں کہ اپنے مختلف قسم کے جھکنڈوں سے کسان کی فصل کی اتنی کم قیمت لگاتے ہیں کہ اسے سخت نقصان کے سوا کچھ بھی نہیں ملتا۔ ان ہتھکنڈوں سے کاشت کار کو نجات دلانے کے کئی طریقے ہیں۔ مثلاً ایک تو یہ کہ قانون کے ذریعہ ایسے درمیانی ایجنٹوں کو ختم کیا جائے یا ان پر ایسی پابندی عائد کی جائے کہ ان کا گھناؤنا کاروبار کم ہو سکے۔ یہ کوششیں ماضی میں کئی بار کی گئیں مگر نا کام رہیں۔ اب حکومت نے اس کا کرنے کے بیماری کا علاج کرنے کے لئے ایک سرکاری ادارہ خرید و فروخت قائم کیا ہے جس کا نام رکھا ہے۔ یہ سرکاری ادارہ کھلی منڈی میں زرعی اجناس کی خرید و فروخت کرتا ہے۔ اور اس امر کا پورا خیال رکھتا ہے کہ کاشت کاروں کی فصل کی قیمتیں ایک مخصوص حد سے نیچے نہ گرنے پائیں۔ اس کی خاطر وہ خود ان کی تمام فصل کو خرید لیتا ہے اور اچھے دام پر خریدتا ہے۔ نیز یہ ادارہ کاشت کاروں کو مختلف قسم کی خدمات بھی فراہم کرتا ہے۔ جس سے ان کی صلاحیت بڑھ جاتی ہے اور وہ محض اپنی مالی دشواریوں کی بناء پر اپنی فصل کو اونے پونے بیچنے سے محفوظ رہتے ہیں۔ (vi) سردخانوں اور ذخیرہ گاہوں کی قلت : زرعی پیداوار اور صنعتی پیداوار میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اپنے
ذرائع آمد ورفت ورسل و رسائل کا ناقص ہونا
گئے گوداموں کی گنجائش میں اضافہ ہو تو ہمیں کہنا چاہیے کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ کسی ملک کی معاشی ترقی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاتا ہے کہ وہاں آمد ورفت کے کتنے وسیع ذرائع ہیں۔ ملک کے دور دراز علاقوں کو آپس میں ملانے والا سب سے بڑا ذریعہ وہاں کی سڑکیں ہوتی ہیں۔ اگر سڑکیں پختہ ہوں اور کافی تعداد میں ہوں تو دیہاتوں اور شہر کے درمیان آمد ورفت زیادہ ہوتی ہے۔ کاشت کار اپنا مال آسانی سے شہروں میں لا کر فروخت کرتا ہے۔ شہر کی متعدد سہولیات مثلاً اسکول ، کالج، ہسپتال وغیرہ سے کسان بھی مستفید ہوتا ہے۔ ان چیزوں کی ابھی تک ہمارے ملک میں اتنی تعداد نہیں جتنا کہ معیاری طور پر ہونی چاہیے۔ ہماری سالانہ ترقیاتی پالیسی بناتے وقت اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ ترقیاتی اخراجات کا معقول حصہ ان چیزوں کی ترقی پر صرف کیا جائے ۔ تاہم اپنے مقاصد کے حصول میں ابھی تک ہمیں پوری طرح کامیابی حاصل نہیں ہوسکی۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "پاکستان میں زراعت کی اہمیت" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ