خوراک کے مسلے کا حل
پاکستان میں مشینی کاشت کی ضرورت ⇐ پاکستان کو اللہ نے تمام نعتوں سے نوازا ہے۔ اس میں میدانی علاقے بھی ہیں اور پہاڑی علاقے بھی۔ بارش بھی ہوتی ہے اور بعض علاقوں میں بارش کی قلت بھی ہے۔ ایک طرف صوبہ بلوچستان ہے جہاں کی آبادی کی گنجانی تقریباً 166 فی مربع کلو میٹر ہے اور دوسری طرف صوبہ پنجاب ہے جہاں کی گنجائی 361 فی مربع کلو میٹر تک ہے۔ رقبہ کے اعتبار سے سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ہے جس کا رقبہ 347190 مربع کلومیٹر ہے جبکہ سب سے چھوٹا صوبہ سرحد ہے۔ اسی قسم کی بے کہ اس شمار ایسی باتیں ہیں جنہیں دیکھ کر حیرانگی بھی ہوتی ہے اور افسوس بھی ہوتا ہے کہ اس طرح کے ذخائر سے بھر پور علاقے ابھی تک ویران اور کم آباد میں جبکہ کچھ علاقوں پر آبادی کا انتقاد باؤ ہے کہ وہاں کا نظم ونسق انسانی بس سے باہر ہوتا جا رہا ہے ۔ چونکہ طور لئے مسائل میں پاکستان بنیادی طور پر زرعی ملک ہے اس لئے ہمارے مسائل کا دیگر علاقوں میں سے ایک حل یہ بھی ہے کہ ہم اپنی زرعی پیداوار اوراس سے میں اتنا اضافہ کریں کہ خوراک کا مسئلہ اور اس کی وساطت سے دیگر مسائل بھی حل ہوں ۔
بے روزگاری کے مسئلے کا حل
: پاکستان میں دیہی علاقے تقریباً تین چوتھائی ہیں۔ ان علاقوں کی آبادی کے اعتبار سے کام مہیا نہیں ۔ لوگ بے کاری کا شکار ہیں جس سے ان کی معاشی اور معاشرتی زندگی ابتر ہے۔ دوسری جانب بلوچستان کے علاقے لے لیجئے جہاں زمین وافر ہے مگر پھر بھی لوگ بے کار ہیں۔ پنجاب کے دیہی علاقوں میں زمینوں پر آبادی کا اتنا بوجھ ہے کہ نچاگر ہوجائے ازسر مستور بے روزگاری نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ چنانچہ اگر ہماری زراعت میں مشینی کاشتہ رائج ہو جائے تو آبادی کی از سر و تقسیم سے اور محنت کشوں کی منتقلی سے مستور بے روزگاری کی شدت میں کمی لائی جا سکتی ہے۔ اگر ملک میں مشینی کاشت رائج ہو جائے تو ۔ بلوچستان جیسے بڑے صوبے میں محنت کی کھپت بڑھ جائے گی ۔ فاضل آبادی والے علاقوں سے محنت کی جمعیت اس علاقہ میں منتقل ہوگی ۔ دوسری جانب یہ بھی ہو گا کہ جن علاقوں میں مستور بے روزگاری ہے وہاں زراعت کے ثانوی مشاغل مثلا مرغبانی، باغات کی افزائش، گلہ ہانی بھیٹرمیں پالنا ریشم کی صنعت ، ڈیری فارمنگ وغیرہ شروع ہوں گے جس سے روزگار میں اضافہ ہوگا۔
منڈی کی مسابقت میں اضافہ
مشینی کاشت کی بدولت معاشرہ کے پیدائش دولت کے عمل میں تیزی واقع ہوتی ۔ وقت کی اہمیت اتنی ہی بڑھ جاتی ہے جتنی کہ سرمایہ کے کسی اور قسم کی اہمیت ہوا کرتی ہے۔ پیداوار کی مقدار میں اضافہ کے ساتھ ساتھ اس کی افادیت کو بھی بڑھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ شے میں افادہ بڑھانے کے لئے زرعی شعبہ میں پراسنگ ، پذیر دیا گریڈنگ اور سٹینڈرڈائزنگ کے طریقے استعمال کئے جاتے ہیں۔ تصیح پذیر اشیا کو مشینوں سے گزار کر ایسا کر دیا جاتا ہے کردہ ذبوں میں آسانی سے بند کر کے دور دراز کے علاقوں تک پہنچائی جاسکیں ۔ اس طرح منڈی کی وسعت ہوتی ہے منڈی کی دور دراز کے علاقوں جائیں۔ اس وسعت کی میں سے مسابقت میں اضافہ ہوتا ہے۔ ظاہر ہے جس معاشرہ میں زیادہ سے زیادہ مسابقت ہوتی ہے وہاں اشیاء کی قیمتیں کم ہوتی ہیں اور اشیاء کی کوالٹی بہتر ہوتی ہے۔ اشیاء کی اقسام میں جدت پیدا ہوتی ہے اور رسد کی مقدار میں اضافہ ہوتا ہے۔
جدت و اختراع
مکمل مسابقت کے تحت پیدا وار کرنے والا جرانی کا میابی و کام کرنے کے لئے ہرطرف ہاتھ پر مارتا ہے۔ اسے عیدت داختراع سے بھی کام لینا پڑتا ہے۔ اپنی اشیاء کی ایسی قسم دریافت کرتا ہے جو دوسروں کے پاس نہ ہوں۔ پھر ایڈور ٹائزمنٹ اور پلیٹی کے ذریعہ صارفین میں ان اشیاء کی مقبولیت بڑھاتا ہے تا کہ زیادہ سے زیادہ گا ہک اس کے مال کی طرف رجوع کریں ۔ اچھا آجر اس بات کا بھی خیال رکھتا ہے کہ خریداروں کی قوت خرید بھی نہ گرنے پائے چنانچہ وہ اپنے پر صارفین کو قرض ، اقساط پر اشیاء کی فروخت اور بونس وغیرہ بھی دیتا ہے۔ ان تمام باتوں سے قوم کو جو فائدہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ معاشرہ میں نئی نئی اشیاء ایجاد ہوتی ہیں۔
خود کفالت اور درآمدات میں کمی
جس ملک میں مشینی کاشت ہوتی ہے وہاں بیرون ملک کی درآمدات میں کمی واقع ہو جاتی ہے کیونکہ انسانی ضرورت کی اکثر و بیشتر اشیاء اندرون ملک بنا شروع ہو جاتی ہیں۔ مشینی کاشت سے قبل ملک کی برآمدات میں زرعی خام مال کا زیادہ حصہ ہوتا ہے، جو شینی دور میں داخل ہونے کے بعد اندرون ملک کی صنعتوں میں استعمال ہونا شروع ہو جاتی ہیں لہذا اب ملکی برآمدات میں صرف ہوتی ہیں۔ اس طرح ملک کو اپنے مال کی زیادہ سے زیادہ قیمت وصول ہوتی ہے۔
مشینی کاشت کے امکانات
ہمارے ملک میں مشینی کاشت کی ابتداء ہو چکی ہے ۔ حکومت کی پیہم کوششوں کی بدولت اس وقت خاص مقدار میں آلات کاشت کاری کی درآمدات ہو رہی ہیں۔ کسانوں کو فراخدلا نہ قرضے دیئے جا رہے ہیں تاکہ وہ کوخرید ۔ وہ ان آلات کو خرید سکیں ۔ ملک میں ذرائع آب رسانی میں ٹیوب ویل کی تنصیبات میں تیزی سے اضافہ کیا جا رہا ہے اور ! کاشت کاروں کو اس پر معقول اعانہ دیا جاتا ہے تاکہ وہ اس کے تنصیب کرانے کی بھر پور مالی صلاحیت میں ہوں ۔ زراعت کے ضمنی مشاغل کے لئے کاشت کاروں کو زرعی ترقیاتی بینک اور دیگر کاروباری بینکوں کو حکومت کی ہدایت ہے کہ وہ قرضے جاری کرنے میں تساہل سے کام نہ لیں ۔ ملک میں کاشت کاری کے فاضل پرزہ جات بنانے والے چھوٹے اور نئے صنعتکاروں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے۔ زرعی مصنوعات کو بیرون ملک میں متعارف کرانے کے لئے حکومتی اقدامات کئے جاتے ہیں اور وہاں کی منڈیوں کا مطالعہ کرنے کے لئے مسلسل وفود بھیجے جاتے ہیں ۔ ان باتوں سے اس بات کا فوری امکان ہے کہ ملک میں مشینی کاشت کامیابی سے ہمکنار ہو۔
ٹریکٹرز کی بدولت جانوروں میں کمی
(1) ٹریکٹرز کے استعمال سے ہمارے کاشت کاروں پر ایک خوش گوار اثر یہ بھی پڑا کہ بار برداری کے جانوروں میں کی آگئی۔ ان کی نگہداشت کا فالتو بوجھ جو ہمارے کا شتکاروں پر تھا اس میں نمایاں کی ہوئی۔ دیگر آلات کاشت کاری : ٹریکٹرز کے بعد دوسرے نمبر پر کی تعد اد بنتی ہے ۔ یہ تمام آلات ہماری دہی ہے۔ یہ کا شتکاری میں بے حد ضروری ہیں۔ مگر پاکستان کے زیر کاشت رقبہ اور کسانوں کی تعداد کے مقابلہ میں ابھی ان کی تعداد بہت کم ہے اور ان میں اضافہ کی کافی گنجائش موجود ہے۔ ٹیوب ویل : کاشت کاروں کو جدید خطوط پر استوار کرنے میں ٹیوب ویل نمایاں کردار ادا کرتے ہیں ۔ ان سے ہماری زراعت کو مطلوبہ پانی فراہم ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ سیم اور تھور کی شدت میں کمی آتی ہے۔ ہماری حکومت اس بات کی کوشش میں ہے کہ ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا ر ہے تا کہ ہماری زراعت کو در پیش گوناگوں مسائل سے نجات مل سکے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "پاکستان میں مشینی کاشت کی ضرورت" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ