پاکستان کی تجارتی پالیسی

پاکستان کی تجارتی پالیسی ⇐ پاکستان کو ترقی پذیر ملک ہونے کی وجہ سے غیر ممالک سے پیشین خام مال ، فاضل پرزے، مصارف اشیائے صارفین اور مختلف قسم کی خدمات کثر مقدار میں درآمد کرنی پڑتی ہیں لیکن ان کے برعکس ان کی برآمدات صرف چند اشیاء پر مشتمل ہیں جن میں زیادہ تر خام اشیاء اور زرعی پیداوار شامل ہیں۔

پاکستان کی تجارتی پالیسی

برآمدات کے فروغ کے اقدامات

پاکستان کی غیر ملکی تجارتی پالیسی کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل باتیں قابل قدر ہیں۔

زیادہ سے زیادہ ممالک کے ساتھ تجارت

پاکستان کی تجارتی پالیسی کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ ممالک کے ساتھ تجارت کی میں اور درآمدات بھی کئی ملکوں سے منگوائی جائیں ۔ اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ اگر کوئی ایک خاص ملک ہماری برآمدات کی خرید کم کر دیں تو ہم دوسرے ممالک کو زیادہ اشیاء برآمد کر سکیں ۔ اسی طرح اگر کسی ایک ملک سے ضرورت کی اشیاء درآمد ہونا بند ہو جائیں تو دوسرے ممالک کو زیادہ اشیاء برآمد کرسکیں۔ اسی طرح اگر کسی ایک ملک سے ضرورت کی اشیا در آمد ہوا ہے ہو جائیں تو دوسرے ممالک سے منگوائی جاسکیں ۔ مثال کے طور پر اب ترقی یافتہ ممالک بالخصوص پولا مشتر کہ منڈی کے ارکان ہماری برآمدات پر پابندیاں لگا رہے ہیں لہذا اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ترقی پذیر ملکوں کے ساتھ تجارتی تعلقات بڑھائیں۔

برآمدات کو ارزاں کرنے کی کوشش

ہمارے توازن تجارت کے موافق ہونے کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ ہماری برآمدات زیادہ چنانچہ حکومت ے زیادہ ہوں ۔ اس مقصد کے لئے یہ ضرور ہے کہ برآمدات ارزاں اورسنتی ہوں۔ پانچ کون : اس کوشش میں مصروف ہے کہ مختلف اقسام سے برآمدات ستی کی جائیں ۔ چونکہ علمی منڈیوں میں نام آمد کر یدواروں کی میتیں کرتی جاری ہیں اس لئے یہ ضرور ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ مصنوعات پرانی تھیں لیکن اس مقصد میں ہم رف اسی صورت میں کامیاب ہو سکتے ہیں جب ان کی لاگت کم کرتے ہیں۔ ملک کی بے شمار صنعتوںکو ترقی دینے کی کوشش کی جارہی ہے تا کہ غیر مکی در آمدات پر  اپنے حریف ملکوں کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کریں۔

گھریلو صنعت کی ترقی

دارو مدار کم سے کم ہو جائے ۔ اس غرض کیلئے حکومت زیادہ سے زیادہ مشینیں منگوانے کی کوشش کر رہی  کردی تا کہ ملک میں صنعتی ترقی کی رفتار تیز کر دی جائے۔

محصولات

حکومت پاکستان ملک کی برآمدات اور درآمدات پر تجارتی محصول عائد کرتی ہے۔ اگر چہانا اہم مقصد یہ ہوتا ہے کہ سرکاری خزانے کے لئے آمدنی حاصل کی جائے لیکن ان سے ملک کی تجارت پالیسی کے تقاضوں کو بھی پورا کیا جاتا رہا ہے۔ جب کبھی ضروری سمجھا گیا ۔ حکومت نے برآمدات بڑھانے کے لئے بعض اشیاء پر محصول کم کر دیا اور بعض پر سے بالکل ختم کر دیا تھا۔ ملک کی صنعتی ترقی کے لئے بعض ضروری مشینوں اور خام مال پر درآمدی ٹیکس بالکل نہیں لگایا گیا۔

تجارتی معاہدے

پاکستان تجارتی اور محصولات کے معاہدہ عام کارکن ہے اور اس معاہدے کے دوسرے رکن ممالک کے ساتھ تجارت کر کے بہت سے فوائد حاصل کر رہا ہے۔

مقاصد

درآمدی شعبہ میں تجارتی پالیسی کا مقصد یہ رہا ہے کہ غیر ضروری اشیاء کی درآمد کو روکا جائے صنعتی خام مال کی درآمد کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ درآمدات کے متبادلات تیار کئے جائیں درآمدات کو اس صورت میں فروغ دیا جائے ۔ جب مقامی افراط زر پر قابو نہ پانا مقصود ہو۔ بنیادی ضروری اشیاء کی قلت ظہور میں نہ آنے دی جائے۔ ان مقاصد کو مندرجہ ذیل طریقوں سے حاصل کیا گیا۔  بھارت سے 1947ء میں آنے والی اشیاء کی مسلسل فراہمی کے لئے ایک معاہدہ کیا گیا تاکہ نو آزاد ملک میں اشیاء کی قلت نمودار نہ ہو۔  غیر ملکی امداد کو قبول کیا گیا تا کہ اسے مطلوبہ مشینری صنعتی خام مال اور پرزوں کی درآمد کے لئے استعمال کیا جا سکے اور صنعتی ترقی کی رفتار تیز ہو سکے۔ سکے کی قیمت میں دوبارہ تخفیف کی گئی جس سے غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگانے میں مددملی ۔ اسٹیٹ بنک کی طرف سے زرمبادلہ پر کنٹرول نافذ کر کے اس کے بے جا استعمال کی بیخ کنی کا ایکسپورٹ یونس سکیم کا آغاز کیا گیا جس کے تحت درآمدات کو آزادانہ چھوڑنے کی بجائے بر آمدات کے فروغ کے ساتھ وابستہ کر دیا گیا۔ ء میں عام لائسنس کی پالیسی کا آغاز کیا گیا اور وقتا فوقتا اسے منسوخ بھی کیا گیا اور دوبارہ اختیار کیا گیا تا کہ ملک میں اشیاء فروانی سے ملتی رہیں۔  آری ۔ ڈی کے تحت کئی ایسے کارخانے پاکستان ، ایران اور ترکی میں قائم کئے گئے ، جو حیح معنوں میں درآمدات کا متبادل ثابت ہوئے۔ بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوت دی کہ وہ اندرون ملک ایسے کارخانے قائم کریں جو برآمدی اشیاء پیدا کرتے ہوں یا درآمدات کے متبادل تیار کرتے ہوں ایسے متعدد کار خانے مکمل ہو چکے ہیں۔ علاقائی تعاون پرائے ترقی آرسی ڈی کے معاہدے کے ذریعے ایران اور ترکی سے رعائتی نرخوں پر وہ اشیاء حاصل کرنے کی کوشش کی گئی جو دوسرے ممالک سے مہنگے داموں حاصل ہوتی تھیں

غیر ملکی امداد

جب کسی ملک میں معاشی ترقی کے آثار نا پید ہو جا ئیں تو معاشی ترقی کو معمول پر لانے کے لئے اس ملک کی حکومت پانچ ذرائع سے سرمایہ حاصل کرتی ہے جن کا ذکر درج ذیل ہے۔ ملک ذرائع 1- ملک کے سالانہ بجٹ کی فاضل رقم سے سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ حکومت اندرون ملک کے عوام سے قرضے حاصل کرتی ہے۔ سرکاری صنعتوں اور کاروباری اداروں کے نفع سے اس طرح سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ جس سے معاشی بد حالی کا مقابلہ ہو سکے۔ حکومت سرمایہ کاری کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے عوام کی رضا کارانہ طور پر کی گئی بچتوں کو استعمال کرتی ہے۔ حکومت اندرون ملک سرمائے کی فراہمی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے بیرون ملک سے امداد اور قرضے حاصل کرتی ہے۔ اس سرمائے سے ترقیاتی کاموں کے لئے بڑھتی ہوئی ضرورتوں کو پورا کیا جاتا ہے۔

غیر ملکی امداد کی مختلف صورتیں

بیرونی اقتصادی امداد حاصل کرنا کسی ملک کے پسماندہ ہونے کی علامت ہے۔ پاکستان بھی پسماندہ ممالک کی صف میں شمار ہوتا ہے۔ بیرونی اقتصادی امداد ترقی یافتہ ممالک، ورلڈ بنک ، بین الاقوامی اداروں اور بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے حاصل کی جاتی ہے۔ اس امداد کی مختلف صورتیں حسب ذیل ہیں۔

عطیات

ترقی یافتہ ممالک انسانی بنیادوں پر ہنگامی حالت پر قابو پانے کے لئے غریب ممالک کو نقدی با شکل میں امداد دیتے ہیں۔ یہ امداد قابل واپسی نہیں ہوتی ۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اشیاء کی یہ امداد قابل وا ی امداد ہمدردی اور خیر سگالی کی بنیادپر ہوتی ہے۔ سیلاب، زلزلہ ، قط وغیرہ سے متاثرین ممالک عطیات کی امداد سے مستفید ہوتے ہیں۔ پانچ سالہ منصوبوں کے دوران اور افغان مہاجرین کے لئے پاکستان کو کروڑوں ڈالر کے عطیات موصول ہوئے۔

غیرملکی قرضے

بیرونی قرضہ جات زر مبادلہ مشینری ، اور فنی خدمات کی صورت میں دئے جاتے ہیں۔ یہ قرضے مشروط بھی ہوتے ہیں اور غیر مشروط بھی ۔ ان قرضوں کو ملکی سکے میں زرمبادلہ کی شکل میں ادا کرنا ہوتا ہے۔ ان قرضوں کے لئے شرح سود اور ادائیگی کے عرصے کی بھی نشاندہی کی جاتی ہے۔ بعض قرضے صرف اسی شرط پر دیئے جاتے ہیں کہ ان کو کسی مخصوص منصوبے یا مخصوص ملک کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

فنی امداد

جب کسی ملک کو بھاری منصوبوں کی تکمیل کے لئے مخصوص قسم کی فنی امداد در کار ہو تو امیر ممالک اس نوعیت کی امداد فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً جب کوئی فولاد سازی یا بجلی پیدا کرنے کا منصوبہ اعلی فنی امداد کا خواہاں ہو تو یہ امداد فراہم کی جاتی ہے۔ مشاورتی امور اور دوسرے عناصر بھی فنی امداد میں شامل ہوتے ہیں۔ یہ فنی امداد طے شدہ اقساط میں واپس ادا کی جاتی ہے۔

تجارت میں ترجیحی سلوک

امیر ممالک کی طرف پسماندہ ممالک کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے اور وہ اپنی ادائیگیوں کا توازن درست رکھ سکتے ہیں۔ حقیقتا یہ امداد لینے کا ہی ایک ذریعہ ہے بلکہ قرضے سے بچنے کا بھی ذریعہ ہے۔ اس طرح پسماندہ ممالک اپنے بڑھتے ہوئے معاشی مسائل پر قابو پا سکتے ہیں۔

غیر ملکی امداد کے مختلف ذرائع

بیرونی امداد کی دستیابی دو طرفہ معاہدوں کے ذریعے یا بین الاقوامی امدادی اداروں کے ذریعے وقوع پذیر ہوتی ہے۔ ضرورت مند ممالک علیحدہ علیحدہ ممالک سے امداد حاصل کرنے کی بجائے بین الاقوامی اداروں کے ذریعے امداد حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح بہت سی سیاسی پابندیوں سے نجات مل جاتی ہے دیگر یہ کہ امیر ممالک اپنی پسند کی شرائط بھی عائد نہیں کر سکتے ۔ ترقیاتی منصوبوں کے لئے امداد دینے والے درج ذیل بین الاقوامی امدادی ادارے ہیں۔

کولمبو پلان

اس ادارے کے ذریعہ امریکہ، برطانیہ، کینڈا، جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ امداد فراہم کرتے ہیں۔ یہ ادارہ جنوب مشرقی ایشیاء کو فنی اور تکنیکی امداد دینے کے لئے قائم کیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے ادارے

اقوام متحدہ اپنےمخصوص اداروں کے ذریعے پسماندہ ممالک کو عطیات ، لیے عرصہ کے لئے قرضے اور ماہرانہ خدمات فراہم کرتی رہتی ہے۔ اقوام متحدہ کا نعتی ترقیاتی ادارہ پسماندہ ممالک کو صنعتوں کے قیام میں مدد دیتا ہے۔ جب کہ ترقیاتی ادارہ وسائل کے ماہرانہ استعمال کے سلسلے میں مدد دیتا ہے۔

ورلڈ بنک

ورلڈ بنک یا بین الاقوامی ادارہ برائے ترقی و تعمیر نو دنیا کے (124) سے زیادہ ممالک کو لمبے عرصے کے لئے ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہونے والے قرضے فراہم کرتا ہے۔ یہ قرضے معاشی ترقی کے لئے معاون منصوبوں کے لئے ظاہر کیے جاتے ہیں۔ جن میں ریلوے اور سڑکوں کے نظام کو بہتر بنانے اور ا ن کے امیر سے ہوا مال ہیں۔

اسلامی ترقیاتی بنک

یہ بنک 1975ء میں قائم کیا گیا تھا۔ 40 مسلم ممالک اس بنک کے ممبر ہیں۔ اس بنک کا امداد شدہ سرمایہ 79 کروڑ اسلامی دیتا ہے۔ یہ بنک اسلامی شریعت کے اصولوں کے پیش نظرمسلم ممالک میں معاشی اور معاشرتی ترقی کی سکیموں کے لئے امداد دیتا ہے۔ اس بنک نے پاکستان کو بھی کئی دفعہ امدادی ہے۔ 

تیل برآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم

تنظیم ترقی پذیر ممالک کے ترجیحی منصوبوں کی تکمیل کے لئے امداد فراہم کرتی ہے۔ پاکستان بھی یہ اس زمرے میں امداد حاصل کرنے والے ممالک کی صف میں شامل ہے ۔

اشتراکی ممالک کی ترقیاتی امداد

غیر اشترا کی پسماندہ ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے، اپنے ترقیاتی منصوبوں کے لئے امداد حاصل کرتے ہیں۔ اشتراکی ممالک میں روس، چین، یوگوسلاویہ، پولینڈ ، اور چیکوسلواکیہ وغیرہ شامل ہیں۔

پی ایل 180

امریکہ اپنی فاضل زرعی پیداوار اور پسماندہ ممالک کو دو طرفہ معاہدوں کی بنیاد پر امداد فراہم کرتا ہے۔ ان قرضوں کی ادائیگی ملکی کرنسی میں کی جاتی ہے۔

پاکستان کے لئے قائم کردہ کنسور یشیم

ی کنسوریشم گیارہ ملک کی شرکت ے قائم ہوا ہے ان میں سلیم، کینیڈا، فرانس،جرمنی، اٹل، جاپان، نیدر لینڈ ، ناروے، سویڈن، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔ پاکستان کو کئی دفعہ بھاری مقدار میں امدادل چکی ہے۔

بین الاقوامی مالیاتی کارپوریشن

یہ بھی ورلڈ بنک کا ایک قسم کا معاون ادارہ ہے۔ قرض خواہ کو اس ادارہ سے قرضہ حاصل کرنے کے لئے کوئی ضمانت نہیں دینی پڑتی ۔ یہ ادارہ نجی شعبہ کے منصوبوں کے لئے قرضے فراہم کرتا ہے۔

اہنی برائے بین الاقوامی ترقی

یداہنی بھی ورلڈ بنک کا ایک حصہ ہے۔ یہ ادارہ ضرورت مند ممالک کو صنعتوں کو قیام کے لئے قرضے فراہم کرتا ہے۔ قرضے عموما ملکی کرنسی میں واپس کرنے ہوتے ہیں۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "پاکستان کی تجارتی پالیسی"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment