پہلی شادی کی عمر کم عمری کی شادی ⇐ بالیدگی کا تعین کرنے میں کسی خاتون کی پہلی شادی کی عمر کے رجحان کا کردار بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ پہلی شادی کی عمر سے مراد وہ عمر ہے جس میں عام طور پر معاشرے میں لڑکیوں کی شادی کی جاتی ہے۔ جیسا کہ ایک خاتون کے بچے پیدا کرنے کی عمر 15 سال سے لے کر 49 سال تک ہو سکتی ہے اس لئے جتنا پہلی شادی کی عمر زیادہ ہو گی اتنا بچے پیدا کرنے کا وقت کم رہ جائے گا۔ اگر ہم پاکستانی معاشرے کی بات کریں تو یہاں کم عمری کی شادی کا رجحان قدرے زیادہ ہے۔ اگر ہم اس کا موزانہ چند مغربی یا ترقی یافتہ ممالک سے کریں تو وہاں پر پاکستان کی مقابلے میں شادی کی عمرکافی زیادہ ہے۔ مذہبی اقدار کو بھی کم عمری کی شادی کے لئے استعمال کیا جاتا ہے یعنی پاکستان جو کہ واضح طور پر مسلمان اکثریت آبادی کا ملک ہے میں کئی لوگ یہ مذہبی عقیدہ رکھتے ہیں کہ لڑکی کی شادی بلوغت کی عمر میں پہنچنے کے بعد جلد سے جلد کردی جائے مگر دراصل یہ معاملہ روایتی اقدار اور اطوار طریقوں کا ہے جس میں عورتوں کے پاس فیصلہ سازی اور آگے بڑھنے کے امکانات اور ذرائع بہت کم ہیں۔ ان وجوہات کی بناء پر یہاں بالخصوص دیہی علاقوں میں کم عمری کی شادیاں زیادہ ہوتی ہیں اور نتیجتا بالیدگی کی شرح بھی بہت زیادہ رہتی ہے۔
ناخواندگی
نا خوانده یا کم پڑھی لکھی خواتین میں بچے پیدا کرنے کا رجحان زیادہ ہوتا ہے۔ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ناخواندگی اور کم علمی کی وجہ سے ان ماؤں کو یا تو بدلتے وقت کے تحت بچوں کی تعلیم و تربیت کی ضروریات کا احساس ہی نہیں ہوتا یا پھر معاشرے میں اور بالخصوص خاندان میں کمزور حیثیت اور فیصلہ سازی میں اختیارات نہ ہونے کی وجہ سے بچے پیدا کرنے کے عمل میں انکی رائے کی اہمیت نہیں ہوتی ۔ اس بات سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں۔ کہ اگر عورتیں زیادہ پڑھی لکھی ہوں تو ایک طرف تو وہ بچوں کی تعلیم کی ضروریات کو سمجھتے ہوئے بہتر پرورش کر سکیں گی اور دوسری طرف اپنی بات مؤثر طور پر پہنچانے سے فیصلہ سازی کے عمل پر اثر انداز ہوں گی۔ تعلیم اور نا خواندگی کا معاشرے میں بالیدگی کے رجحان سے ایک اور طرح کا تعلق بھی ہے۔ اگر ہم معاشرتی طور پر دیکھیں تو جب کسی معاشرے میں تعلیم کی کمی ہوگی تو وہاں ہر طرح کے مسائل دیکھنے میں ملیں گے کیونکہ کم از کم دور حاضرہ میں بہت تیزی سے تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں اور تعلیم کے بغیر بدلتی ضروریات اور مسائل کو سمجھنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ پاکستان میں ناخواندگی کی شرح عمومی طور پر زیادہ اور روایتی عقائد پر پختہ یقین ہونے سے لوگ آبادی میں اضافے کو مسئلہ ہی نہیں مانتے۔
بیٹوں کو ترجیح دینا
پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے معاشروں کے اندر بیٹی کے مقابلے میں بیٹوں کو زیادہ اہمیت دی جاتی ہے اس لئے بیٹوں کی پیدائش پر والدین کو خاندان میں زیادہ عزت ملتی ہے جس کی وجہ سے پھر گھروں میں عمومی رویوں کے اندر بھی یہ بیٹے اور بیٹی کا فرق نظر آتا ہے کیونکہ معاشرہ اور بالخصوص قریبی رشتہ دار بیٹے کی پیدائش پر ماں کو عزت دیتے ہیں اس لئے عورت ہوتے ہوئے اس کی بھی بیٹا پیدا کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔ کہ اکثر اوقات لوگ اپنے خاندان میں بیٹوں کی خواہش پوری کرنے کے لئے یا اگر ایک بیٹا ہے تو ان کی تعداد بڑھانے کے لئے بہت سے بچے پیدا کرتے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ایک بیٹے کی خواہش میں کئی بیٹیوں کو جنم دیا جاتا ہے۔ معاشرے کے اس رویے کی وجہ کئی ایسے عقائد ہیں جن میں بیٹوں کو بڑھاپے کا سہارا سمجھنا اور خاندان کے نام اور جائیداد کا وارث سمجھنا شامل ہیں۔
بچوں کی ثقافتی قدر اہمیت
روایتی طور پر انسانی معاشروں میں بچوں کی ایک ثقافتی اہمیت بھی ہمیشہ سے رہی ہے۔ گزشتہ ایک صدی کے دوران البتہ یہ دیکھا گیا ہے کہ وہ معاشرے جو مقابل نا زیادہ محنتی ہوتے ہوئے اور جدت پسند سوچ طاقتور ہوتی گئی تو وہاں اس سوچ اور رویے میں تبدیلی آئی تاہم پاکستان اور اس جیسے معاشروں میں بچوں کی ثقافتی حیثیت مسلم ہے جس کی خاندان میں بچے کی پیدائش ہوتی ہے تو اس میاں بیوی کا رتبہ مرتبہ بلند ہو جاتا ہے۔ خاندان کے مسائل میں ان کی بات کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اسی طرح شادی کے بعد تمام رشتے دار اور ارد گرد موجود لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ کب ان کے خاندان میں نئے فرد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے باقاعدہ پوچھا جاتا ہے۔ اور اگر کچھ عرصہ تک اس سلسلے میں پیش رفت نہ ہو تو خاندان میں تشویش کا اظہار بھی کیا جاتا ہے۔ پاکستان چونکہ ایک پدر شاہی پر مبنی معاشرہ ہے جہاں مرد عمومی طور پر زیادہ طاقتور ہوتا ہے۔ اس لئے یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے۔ کہ عورتیں بچوں کو اپنی شادی شدہ زندگی کے محفوظ اور خوشحال بنے کا ذریعہ سمجھتی ہیں جس کی وجہ سے پیدائش کے رجحان پر اثر پڑتا ہے۔
بڑی عمر میں دیکھ بھال و حفاظت کا ذریعہ
عام طور پر تمام روایتی معاشروں میں یہ عقیدہ یا سوچ پائی جاتی ہے۔ کہ بچے بڑے ہو کر بزرگوں کو دیکھ بھال اور حفاظت کا ذریعہ بنیں گے۔ پاکستانی معاشرے میں یہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جب وہ بوڑھے ہو جائیں گے تو یہ ان کے بچے ہی ہیں۔ جو ان کی دیکھ بھال کریں گے اور روز مرہ کی ضروریات پوری کرنے کا ذریعہ بنیں گے ۔ مثال کے طور پر وہ یہ سوچتے ہیں کہ انسان ساری زندگی کمانے کے قابل نہیں رہتا اور اس طرح بڑھاپے میں اپنا علاج معالجہ اور معاشی ضروریات کے لئے اپنی اولاد پر ہی انحصار کر سکتا ہے۔ ایسے میں اپنی اولاد جو تب تک بڑی ہو کر کمانے کے لائق ہو جاتی ہے ان بزرگوں کی تمام امیدیں ان ہی سے وابستہ ہوتی ہیں۔ کیونکہ بیٹیاں زیادہ تر شادی کے بعد اپنے سسرال چلی جاتی ہیں اس لئے اس امر میں بھی بیٹوں پر زیادہ انحصار ہوتا ہے۔ ایسی سوچ اور بچوں کو بڑھاپے کا سہارا سمجھنا ان معاشروں میں زیادہ ہوتا ہے جہاں ریاستی ادارے اور معاشی گروہ اس معاملے میں زیادہ سنجیدہ نہ ہوں ۔ اگر ہم حقیقت کا مطالعہ کریں تو بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ اولادکا یہ کردار بھی کم ہوتا جارہا ہے اور بچے بہت دفعہ والدین کو وہ مقام اور نگہداشت دیتے نظر نہیں آتے جس کی ان سے توقع کی جاتی ہے۔ بچوں کو بڑھاپے کا سہارا سمجھنا بچے پیدا کرنے کی تعداد میں اضافے کی ایک اہم وجہ ہے۔ حالانکہ حقیقتا یہ کردار کم ہوتا جا رہا ہے۔
مذہبی عقائد
زیادہ بچے پیدا کرنے کے رجحان میں کسی حد تک کچھ مذہبی عقائد کا بھی کردار ہے مثال کے طور پر پاکستان میں لوگوں کا ایک یہ بھی مذہبی عقیدہ دیکھا گیا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ اسلام زیادہ بچے پیدا کرنے کا درس دیتا ہے۔ ان کی نظر میں اس طرح وہ اپنے مذہب کی خدمت کر رہے ہوتے ہیں یعنی جتنے زیادہ بچے ہوں گے اتناہی مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ہوگا اور تعداد میں اضافے سے اپنے مذہب کے ماننے والوں کی طاقت بڑھے گی۔ اس سوچ کے پیچھے یہ نقطہ نظر ہوتا ہے کہ ہر مسلمان کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے مذہب کو پھیلائے اور ایک دن اسلام و دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے۔ بالیدگی اور آبادی میں اضافے سے متعلقہ رویوں اور مذہبی عقائد کے مابین ایک طرح کا تعلق بھی سامنے آیا ہے۔ دنیا کے اندر گزشتہ چند دہائیوں میں خاندانی منصوبہ بندی یعنی مانع حمل طریقے کار یا ادویات نے مؤثر طور پر آبادی کو کنٹرول کرنے میں مدردی ہے۔ پاکستانی معاشرے کے اندر ابھی تک لوگوں کا ایک بڑا حصہ یہ بات یقین سے مانتا ہے کہ اسلام خاندانی منصوبہ بندی کی اجازت نہیں دیتا۔ اس کے برعکس یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اللہ کا وعدہ ہے کہ وہ سب کو خوراک پہنچائے گا۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ خاندانی منصوبہ بندی کا مطلب خوراک کے خوف سے یا غربت کے ڈر سے اپنے بچوں کو قتل کرنا ہے۔ دراصل اس سوچ اور نقطہ نظر کی وجہ پاکستان میں مذہب سے جڑے مضمرات کی جدید علوم اور مسائل سے ناواقفیت بھی ہے۔
بڑا خاندان اور سماجی طاقت
پاکستانی معاشرہ تاریخی طور پر قبائلی یا زرعی طرز پر مبنی رہا ہے تمام قبائلی اور زرعی معاشروں میں افراد کی تعداد کو عزت وقار کے ساتھ ساتھ طاقت کا ذریعہ بھی سمجھا جاتا ہے یعنی جو قبیلہ تعداد میں جتنا بڑا ہو گا اور جس خاندان کے افراد کی تعداد جتنی زیادہ ہوگی وہ خود کواتنا طاقتور اور محفوظ تصور کرے گا اس کی ایک اور وجہ معاشرے میں موجود کئی طرح کے تصادم اور دشمنیاں بھی ہیں جہاں اپنے افراد ہی حفاظت کا ذریعہ سمجھے جاتے ہیں۔ یہی سوچ آگے بڑھ کر ہر خاندان تک آجاتی ہے مثلا آپ نے دیکھا ہو گا کہ مختلف گاؤں محلوں اور علاقوں کے اندر عام طور پر ان گرہوں کی زیادہ عزت اور حیثیت ہوتی ہے جن میں افراد بالخصوص بیٹوں کی تعداد زیادہ ہو۔ لوگ ایسے خاندان سے الجھنے سے بھی کتراتے ہیں۔ اسی وجہ سے جتنی اس سوچ کی اہمیت زیادہ ہوگی اتنا معاشرہ میں شرح پیدائش کو قابو کرنا مشکل ہوگا۔
عورتوں کا مقام
معاشرے میں شرح پیدائش اور لوگوں کے منصب میں ایک خاص ربط دیکھا گیا ہے۔ عام طور پر یہ بات سامنے آئی ہے کہ جدید معاشروں میں جتنا کسی کا معاشرتی مقام بلند ہوتا ہے اتنا ان کے ہاں شرح پیدائش کم ہوتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں عام طور پر غریبوں کے ہاں بچے زیادہ پیدا کئے جاتے ہیں اصل میں جب کسی انسان کا معاشرتی مقام یا رتبہ بلند ہوتا ہے تو اس کی زندگی کی ترجیحات بدل جاتی ہیں اور وہ اپنی توانائی اس رتبہ اور مقام میں مزید بلندی لانے یا کم از کم اس کو قائم رکھنے پر خرچ کرتا ہے۔ بچے پیدا کرنا اس کی اولین ترجیح نہیں رہتا۔ بالکل اسی طرح اگر کسی معاشرے میں عورتوں کا مقام کم تر یا کمزور یا نیچا ہوتا ہے تو وہاں عام طور پر بچے پیدا کرنے کارجحان زیادہ ہوتا ہے اور جہاں یا جس عورت کا مقام معاشرے میں بہتر ہوتا ہے وہ کم بچے پیدا کرتی ہے۔ ہوتا یوں ہے کہ اگر کسی جگہ عام طور پر عورتوں کو کمزور اور نیچا سمجھا جائے تو فیصلہ سازی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکیں گی۔ ایسے وہ نہ تو مردوں کے آگے کھڑی ہو سکتی ہیں اور نہ اپنی بات منوا سکتی ہے۔ بلکہ ایسا ہوتا ہے کہ اگر کوئی عورت اس معاملے میں من مانی کی کوشش کرے تو اسے طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بعض اوقات تو بہت بڑے الزامات بھی لگائے جاتے ہیں۔ اگر عورت پڑھی لکھی ہو گی اپنے گزر بسر کے لئے دوسروں کی محتاج نہ ہوگی تو اپنی صحت اور وسائل دیکھتے ہوئے وہ بچوں کی تعداد کے بارے میں بہتر طریقے سے رائے دے سکے گی۔
عورتوں کی ملازمت زرعی روزگار میں شمولیت
وہ عورتیں جو ملازمت پیشہ ہوتی ہیں ان میں بچے پیدا کرنے کا رجحان کم ہوتا ہے۔ دراصل اس رویے کے پیچھے دو طرح کی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ ملازمت میں آجانے سے ایک عورت کی دوسروں پر معاشی انحصاری کم ہو جاتی ہے اور وہ خود کو زیادہ محفوظ سمجھنے لگتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اس وجہ سے عورتوں کے معاشرتی مقام و مرتبہ میں اضافہ ہو جاتا ہے اور وہ خود اعتمادی کی طرف بڑھنے لگتی ہیں۔ ملازمت کے لئے گھر سے باہر جانے کی وجہ سے عملی زندگی کا تجربہ بھی ہوتا ہے ان سب باتوں کے نتیجے کے طور پر عورت اپنی زندگی سے متعلق فیصلہ سازی میں شمولیت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وہ غیر تعلیم یافتہ اور گھروں میں بیٹھی خواتین کی نسبت زیادہ خود مختاری محسوس کرتی ہیں جس کی وجہ سے بالیدگی سے متعلق رویے میں بھی وہ کسی حد تک فیصلہ میں شامل ہوتی ہیں ۔ دوسری طرف روز گار سے جڑی کچھ اور وجوہات بھی ہیں جو کہ شرح پیدائش میں کمی کا باعث بنتی ہیں۔ اگر ہم تھوڑا سا غور کریں تو یہ بات بہت آسانی سے سمجھ آنے والی ہے کہ نوکری ر ملازمت کے ساتھ ساتھ کسی بھی عورت کیلئے بچوں کی ذمہ داریاں پوری کرنا بہت مشکل ہوتا ہے ۔ ایسے میں بار بار دفتر سے چھٹی لینا ممکن نہیں ہوتا تو اگر ایک عورت ملازمت میں ہوگی تو بچے پیدا کرنے کے لئے اسے یا تو ملازمت سے چھٹی لینا ہوگی یا ملازمت چھوڑنا پڑے گی۔ دونوں میں سے کوئی بھی صورت بار بار ممکن نہیں۔ کیونکہ ایک یا دو بچوں تک تو ہو سکتا ہے کہ ملازمت سے چھٹی مل جائے مگر اس سے زیادہ شاید ممکن نہ ہو اور اس بے روزگاری کے دور میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو صرف بچے پیدا کرنے کے لئے ملازمت کو خیر باد کہے۔ اگر ہم پاکستان اور دنیا کا جائزہ لیں تو یہ بات مشترک ہے کہ ملازمت پیشہ خواتین میں بچے پیدا کرنے کا رجحان کم ہے اور کیونکہ مغربی ممالک میں نسبتا زیادہ خواتین ملازمت کرتی ہیں اس لئے وہاں یہ شرح پیدائش بھی نسبتا کم ہے۔ بالکل یہی فرق پاکستان میں دیہی اور شہری علاقوں کا ہے جہاں شہروں میں عورتوں کے روزگار اور ملازمت میں زیادہ شمولیت کی وجہ سے دیہی عورتوں کی نسبت شرح پیدائش کم ہے۔
لڑکیوں کی تعلیم
لڑکیوں کی تعلیم کا بھی بالیدگی کے رجحان کے ساتھ بڑا گہرا تعلق ہے۔ وہ بچیاں جو تعلیم حاصل کرتی ہیں ان کی زندگی اور خاص کر بچے پیدا کرنے کے رویے پر اس عمل کا دو طرح سے اثر ہوتا ہے۔ ایک یہ کہ تعلیم میں جانے کی وجہ سے کم عمری کی شادی کا چانس کم ہو جاتا ہے کیونکہ اگر لڑکیاں صرف میٹرک ہی کریں تو ان کی شادی کم سے کم 18-17 سال سے پہلے ہونے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اور جوں جوں تعلیم کا یہ لیول آگے بڑھتا ہے ایسے ویسے شادی کی عمر بھی زیادہ ہوتی جاتی ہے۔ مثلاً اگر لڑ کی ایف اے، بی اے یا ایم اے کے بعد شادی کرے گی تو اس کے بچے پیدا کرنے کی عمر نسبتا کم رہ جائے گی جس کے نتیجے میں کم بچے پیدا ہوں گے اور ایک عرصے کے بعد شرح پیدائش میں کی نظر آنا شروع ہو جائیگی ۔ دوسری طرف لڑکیوں کی تعلیم ان کے مقام و مرتبہ میں بلندی ، معاشی طور پر خود انحصاری اور ملازمت میں مسا شمولیت کی شرح میں اضافہ کا باعث بنتی ہے جو کہ ان کی زندگیوں میں کئی طرح کی تبدیلی لاتا ہے۔ ان تبدیلیوں میں ایک کم بچے پیدا کرنے کا رجحان بھی ہے
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "پہلی شادی کی عمر کم عمری کی شادی" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئ
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
………پہلی شادی کی عمر کم عمری کی شادی ……….