کثرت آبادی کے معاشرے پر اثرات ⇐ جب آبادی کے بڑھنے کی شرح معاشی اور سماجی ترقی کی رفتار سے زیادہ ہو تو ایسی صورت حال کو کثرت آبادی کہتے ہیں۔ اگر تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ ساتھ معاشی وسائل بھی تیزی سے بڑھتے جائیں تو آبادی کا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ لیکن آبادی بڑھتی جائے اور وسائل جوں کے توں رہیں تو ایسی صورت میں معاشرتی وسائل جنم لیتے ہیں
معاشرے پر تقی اثرات مرتب کرتے ہیں۔
آبادی میں بچوں اور خواتین کی اکثریت ہونے کی وجہ سے کمانے والے افراد کو اپنے زیر کفالت بچوں
خواتین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔
وہ تمام وسائل جنہیں ملکی ترقی کے لئے استعمال کیا جا سکتا تھا۔
بڑھتی ہوئی آبادی
اب بڑھتی ہوئی آبادی کی تعلیم صحت اور دیگر غیر پیداواری سہولتوں کی فراہمی کے لئے صرف کئے جانے لگتے ہیں جس سے ملکی معیشت پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔
روز گار کی تلاش
اضافہ آبادی کی وجہ سے نو جوانوں کی ایک بڑی تعداد روز گار کی تلاش میں سرگرداں رہتی ہے کیونکہ ملک میں ایسے معاشی ترقیاتی منصوبوں کی کمی ہے جوان مایوس ہوتے ہوئے نو جوانوں کو امید کی کرن دکھا سکے۔
سماجی برائیوں کو فروغ
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی غربت، بے روزگاری، معاشی و معاشرتی بدحالی، جرائم اور دوسری سماجی برائیوں کو فروغ دے رہی ہے۔دیہی علاقوں سے روزگار اور سہولیات زندگی کے حصول کے لئے نقل مکانی کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
شہروں میں افراد کا ہجوم
جس سے شہروں میں افراد کا ہجوم ، مکانوں کی قلت ، صفائی کا ناقص انتظام، پست معیار تعلیم اور خوراک کی قلت جیسے مسائل کا سامنا ہے۔
معاشرتی مسائل کا شکار
بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے فی کس آمدن بھی کم ہوتی ہے جو مہنگائی کو فروغ دیتی ہے۔ جس کا براہ راست اثر افراد کی صحت، جسمانی ذہنی نشو و نما اور معیار زندگی پر پڑتا ہے۔
سماجی بدحالی اور بدنظمی
سماجی بدحالی اور بدنظمی بڑھتی ہے اور ملک معاشرتی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ملکی سرمائے کا ایک بڑا حصہ لوگوں کی بنیادی ضروریات پورا کرنے میں صرف ہونے لگتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان تو انائی اور مہنگائی کے بحران میں پھنس کر رہ گیا ہے۔
ترقیاتی منصوبوں
بڑھتی ہوئی آبادی نہ صرف ترقیاتی منصوبوں کیلئے رکاوٹ کا باعث بنتی ہے بلکہ معیار زندگی کو بلند کرنے کا مقصد کسی حد تک ایک خواب بن کر رہ جاتا ہے۔ کثرت آبادی کے باعث قدرتی وسائل اور انسانوں کی تعداد میں توازن بگڑ جاتا ہے
اکثریت کا انحصار
اکثریت کا انحصار چونکہ زراعت پر ہے اور زرعی وسائل کم ہیں تو اس وجہ سے بہت سے خاندان غریب سے غریب تر ہوتے جارہے ہیں ۔ یوں محدود وسائل کی وجہ سے آنے والی نسلوں کی بہبود بھی متاثر ہو رہی ہے۔
کثرت آبادی کی روک تھام کے لئے اقدامات
ہم جانتے ہیں کہ کثرت آبادی سنگین ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ اگر چہ اللہ تعالیٰ نے زمین کو طرح طرح کی نعتوں اور وسائل سے مالا مال کیا ہے لیکن آج کے ترقیاتی دور میں خدا کی نعمتیں بتدریج کم ہوتی جارہی اور دنیا کی ایک بڑی آبادی کو ایک وقت کی روٹی بڑی مشکل سے میسر آتی ہے۔ ماہرین عمرانیات، اقتصادیات و آبادیات اس صورتحال کی سب سے بڑی وجہ وسائل سے زیادہ بڑھتی ہوئی آبادی کو قرار دیتے ہیں۔ بڑھتی ہوئی آبادی کا یہ سیلاب پاکسان کی معاشی معاشرتی ترقی کے لئے ایک بہت بڑا خطرہ ہے۔ کثرت آبادی کی روک تھام کے لئے چند اقدامات درج ذیل ہیں۔
عورت کے روایتی کردار میں تبدیلی
پاکستان میں برادری ازم کی موجودگی مشتر کہ خاندانی نظام اور دیگر ثقافتی اثرات کی وجہ سے معاشرے میں مرد کو عورت پر فضلیت حاصل ہے۔
گھر اور بچوں کی پرورش
جس کی وجہ سے عورت اپنے روایتی کردار یعنی گھر اور بچوں کی پرورش تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ اس تصور کو توڑنے کی ضرورت ہے کیوں کہ اگر ملک کی آدھی آبادی گھر میں قید ہو کر رہ جائے یا ایسے کام کرے جس کی نوعیت غیر پیداواری ہو تو ظاہر ہے
کثرت آبادی کا باعث
یہ بات ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ اور کثرت آبادی کا باعث ہے۔ خواتین کا جاب کر نا کسی حد تک اس مسئلے کو کنٹرول کر سکتا ہے۔
افادیت کا اندازہ
خواتین میں خواندگی کی سطح خصوصا دیہی علاقوں میں بہت کم ہے۔ خواتین میں تعلیم کے پھیلاؤ کی افادیت کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جا سکتا ہے
بچوں کی تعداد
نا خواندہ خواتین کی نسبت ایسی خواتین جنہوں نے تعلیم حاصل کی ہو۔ ان کے ہاں بچوں کی تعداد نصف ہوتی ہے۔ اس لئے چھوٹے خاندان کی اہمیت اجاگر کرنے اور شرح پیدائش کوکنٹرول کرنے کے لئے خواتین کی تعلیم انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
افرادی قوت کا صحیح استعمال
افرادی قوت کا صحیح استعمال بھی آبادی کی روک تھام میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے جیسا کہ نو جوانوں کو ہنر سکھائے جائیں اوران کی پیداواری صلاحیتوں کو بروئے کار لایا جائے تا کہ بھکاری نہ بنیں اور بے کار نہ پھریں۔
خاندانی منصوبہ بندی کا شعور
خاندانی منصوبہ بندی کا مقصد، خاندان میں افراد کی تعداد کو خاندان کے وسائل کے مطابق رکھنا ہے نہ کہ نسل انسانی کی بندش ہے۔ پاکستان میں آبادی کے کنٹرول سے متعلق جتنے بھی منصوبے کام کر رہے ہیں ان کی صحیح افادیت کی آگاہی کے لئے ملک گیر سی پر منظم کوششوں کی ضرورت ہے جس کے لئے تمام ذرائع بروئے کار لانےچاہییں جن میں میڈیا قلمی اداروں اور دیہی سطح پر بزرگوں کو شامل کرنا ضروری ہے۔
دیہی آبادی کی ترقی
دیہی آبادی کو معاش و معاشرتی ترقی دینے اور بہترین صحت، غذا اور تعلیمی سہولیات فراہم کرنے سے دیہی معاشروں میں عورت کا مقام و معیار بلند کرنے میں مدد ملے گی۔ جس سے ملکی ترقی اور ملک کی آبادی کے درمیان بہتر توازن قائم کرنے میں مدد ملے گی۔
قدرتی وسائل کا بہتر استعمال
معاشی و معاشرتی منصوبوں کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل کا صحیح استعمال بھی آبادی کے اضافے کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ کیوں کہ جتنا کوئی معاشرہ خوشحال ہو گا اور وسائل کی فراوانی ہوگی ۔
قدرتی وسائل
اضافہ آبادی کبھی بھی مسئلہ نہیں بنے گی۔ قدرتی وسائل میں پانی کا صحیح استعمال جیسا کہ ڈیمز کی تعمیر کے ذریعے پانی کے ذخائر بڑھانا ، زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال ، جدید زرعی آلات کا استعمال ، کھادیں اور توانائی کے نئے ذخائر وغیرہ کی دریافت شامل ہیں۔
دیہی علاقوں کی ترقی
ان اصولوں پر عمل کیا جائے اور دیہی علاقوں کی ترقی پر خاص توجہ دی جائے تو پورا معاشرہ خوشحال ہو گا اور بے روز گاری کم ہو جائے گی۔ وسائل کے صحیح استعمال و منصفانہ تقسیم سے لوگوں میں محنت کا جذبہ اجاگر ہوگا۔
افراد کا معیار زندگی
افراد کا معیار زندگی بلند ہو گا اور یوں معاشرہ امن و خوشحال کی جانب گامزن ہوگا اور کثرت آبادی کا مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوگا۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “کثرت آبادی کے معاشرے پر اثرات“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ