آلو کی بیماریاں

آلو کی بیماریاں ⇐آلو کی فصل پر مندرجہ ذیل بیماریاں حملہ آور ہوتی ہیں۔

آلو کی بیماریاں

  • اگیتا جھلساؤ
  • پچھیتا جھلساؤ
  • سوکا (مرجھاؤ)
  • بھوری سڑن
  • پتہ لپیٹ وائرس

اگیتا جھلساؤ

آلو کی اگیتا جھلساؤ کی بیماری ایک خاص قسم کی پھپھوندی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ یہ بیماری عام طور پر میدانی علاقوں میں خزاں کے موسم میں کاشت کی جانے والی آلو کی فصل کو زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ اس کا حملہ پہاڑی علاقوں میں بھی ہو سکتا ہے۔

پہچان

اس بیماری کی علامات سب سے پہلے پودوں کے پتوں پر ظاہر ہوتی ہیں۔ گہرے بھورے رنگ کے دھبے بن جاتے ہیں۔ یہ چھوٹے چھوٹے دھبےوائرس کی شکل میں ہوتے ہیں۔ بیماری کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ دھبے زیادہ ہوجاتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے مل جاتے ہیں جس کے نتیجے میں پتے مڑکر سوکھنے لگتے ہیں۔ بیماری کی شدت اختیار کرنے کی صورت میں دھبے تنوں پر بھی پہنچ  جاتا ہے۔ پتوں کے سوکھ جانے سے خوراک بنانے کے عمل میں رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ بیماری کی وجہ سے آلوؤں کا سائز چھوٹا رہ جاتا ہے۔ پیداوار میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ حملہ شدہ فصل کے آلو زیادہ دیر تک ذخیرہ بھی نہیں کئے جا سکتے

پھیلنے کے اسباب

یہ بیماری پچھلے سال کاشت کی گئی آلو اور ٹماٹر کے پودوں کے کھیت میں بچے کھچےحصوں میں چھپی رہتی ہے۔ موافق موسمی حالات  آب و ہوائی اور درجہ حرارت وغیرہ ملنے کی صورت میں نئی فصل پر حملہ کرتی ہے۔ آلو کی اگیتی جھلساؤ کی بیماری گرم و مرطوب موسم میں زیادہ پھیلتی ہے اور آلو کی اگیتی اقسام اس بیماری سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہیں۔

 روک تھام

  • کاشت کیلئے ایسی فصل سے آلو  حاصل کرنے چاہئیں جس پر بیماری کا حملہ نہ ہوا ہو۔
  • پودوں کے بیماری والے بچے کھچے حصوں کو اکٹھا کر کے ضائع کر دینا چاہیے۔
  • فصلوں کا مناسب ہیر پھیر کرتے رہنا چاہیے۔
  • مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک زہر کا سپرے کریں۔
  • ڈائی تھین ایم ۲۵

انٹرا کول ایک کلوفی ایکڑ کے حساب سے ۵۰ لیز (۱۰۰ گیلن پانی میں ملا کر فصل پر سپرے کریں۔ پہلی سپرے بیماری کے شروع ہوتے ہی کر دینی چاہیے۔ جبکہ دوسری بار ۱۰۔ ۱۵ دن کے وقفے سے سپرے کریں۔ بیماری کیخلاف لیرومینذیب ڈبلیو پی بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔  لیرومینذیب  فی ایکڑ پانی کی مناسب مقدار میں حل کر کے بیماری کے شروع ہوتے ہی سپرے کریں۔ بیماری کے ظاہر ہوتے ہی ٹرائی میلٹاکس  فورٹے بحساب ۱۰۰۰ گرام فی ایکٹر سپرے کریں۔

پچھیتا جھلساؤ

آلو کی بھی جھلساؤ کی بیماری ایک قسم کی پھپھوندی کی وجہ سے پھیلتی ہے۔ اس بیماری کو پہاڑی جھلساؤ  بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ بیماری زیادہ تر پہاڑی علاقوں میں آلوکی فصل پر حملہ کر کے زبردست نقصان پہنچاتی ہے۔

پچھیتا جھلساؤ

پہچان

اس بیماری میں شروع شروع میں پتوں کے باہر کی طرف یعنی کناروں حاشیوں اور نوکوں پر بھورے رنگ کے چھوٹے چھوٹے دھبےظاہر ہوتے ہیں۔ بعد میں یہ دھبےبڑھتے بڑھتے سارے پتوں پر پھیل جاتے ہیں۔ پتے مڑ جاتے ہیں۔ بیماری کے بڑھ جانے سے ڈنٹھل بھی متاثر ہو جاتی ہے اور گل سڑ جاتی ہے۔ خشک اور صاف موسم کی صورت میں پچھیتا جھلساؤ کی بیماری کا اثر کچھ کم ہوتا ہے۔ مرطوب موسم میں بیماری زیادہ پھیلتی ہے جس کے نتیجے میں تمام حملہ شدہ پودے گل سٹر جاتے ہیں ۔ ان میں سے ایک طرح کی بدبو آنے لگتی ہے۔ اس کے علاوہ ذمین میں آلو بھی گل سڑ جاتے ہیں۔

بیماری پھیلنے کے اسباب

آلو کی پچھیتا جھلساؤ کی بیماری کئی ذرائع سے پھیلتی ہے۔ پچھلے سال کاشت کی گئی فصل کے بچے کھچے مختلف حصوںپتوں ، شاخوں اور گلے سڑے آلو سے پھیلتی ہے۔ بیماری سے متاثرہ فصل سے آلو بطور بیج حاصل کر کے فصل کاشت کرنے سے بیماری پھیلنے میں مدد ملتی ہے۔ آلو کی بیمار فصل سے تندرست فصل میں اس بیماری کے جراثیم پانی اور ہوا کے ذریعے بھی پہنچ جاتے ہیں اور اس طرح بیماری کے پھیلنے کا سبب بنتے ہیں۔

 روک تھام

کاشت کیلئے ہمیشہ تندرست اور صحت مند آلو  استعمال کریں پچھلی فصل کے بیمار پودوں کے مختلف حصوں اور گلے سڑے آلوؤں کو اکٹھا کر کے تلف کر دیں تا کہ بیماری کے جراثیم تلف ہو سکیں اور اس طرح اگلے سال کاشت کی جانے والی نئی فصل بیماری سے متاثر نہ ہو سکے۔ فصل کا مناسب ہیر پھیر کرتے رہنے سے بیماری کے حملے کو کسی حد تک کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ خیال رہے کہ جس کھیت میں آلو کی فصل پر خزاں کے موسم میں پچھیتا جھلساؤ کی بیماری کا حملہ رہ چکا ہو تو اس کھیت میں آلو کی بہاریہ فصل کاشت نہ کی جائے۔ فصل پر بیماری کے شروع ہونے پر مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک زہریلی دوا کی سپرے کی جاسکتی ہے۔ڈائی تھین  ایک کلو فی ایکڑیا انٹرا کول  ایک کلو فی ایکڑ ۴۵۰ لیٹر ( ۱۰۰ گیلن پانی میں اچھی طرح ملا کر سپرے کریں۔ مندرجہ بالا زہروں کے علاوہ لیرومینزیب بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔ زہریلی دواؤںکیلئے محکمہ زراعت کے عملے سے مشورہ ضرور کریں۔ اس بیماری کیخلاف ٹرائی میلٹا کس فورٹے بھی استعمال کی جاسکتی ہے۔

سوکایامرجھاؤ

آلو کے سو کے ( مرجھاؤ) کی بیماری ایک طرح کی پچپچوندی کی وجہ سے پھیلتی ہے۔ یہ ہماری دنیا میں آلو پیدا کرنے والے تقریبا ہر ملک میں پائی جاتی ہے۔ میدانی علاقوں میں بہار کی فصل پر فروری سے مئی میں اور پہاڑی علاقوں میں عام فصل پر اگست میں اس بیماری کا حملہ ہوتا ہے۔

سوکایامرجھاؤ

پہچان

سو کےکی بیماری کو پہچاننا بہت آسان ہے۔ جب پودے چھوٹی عمر یعنی ۲ سیٹی میٹر (انچ) کے ہوتے ہیں تو بیماری ظاہر ہونے لگتی ہے۔ پتے زرد پڑ جاتے ہیں اور سوکھنے لگتے ہیں۔ جب بیماری شدت اختیار کر جائے تو پودوں کی جڑیں بھی گل سڑ جاتی ہیں اور اس طرح پودے ختم ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں آلو کی پیداوار میں کی واقع ہو جاتی ہے۔

 بیماری پھیلنے کے اسباب

یہ بیماری زمین کی زیادہ نمی کی موجودگی میں بہت زیادہ پھیلتی ہے۔ بیماری سے متاثرہ فصل سے آلو (بیج) حاصل کر کے کاشت کرنے سے بیماری کے پھیلنے میں مدد ملتی ہے۔

 روک تھام

ہمیشہ تندرست فصل سے آلو کا بیج حاصل کر کے کاشت کرنا چاہیے۔ آلو کا بیچ حاصل کرنے کیلئے آپ محکمہ زراعت کے عملے سے مشورہ ضرور کریں۔ بیماری سے متاثرہ کھیوں میں فصلوں کے مناسب ہیر پھیر کا خیال رکھیں۔ بیماری والے کھیتوں میں کم از کم  سال تک آلو، بینگن اور ٹماٹر کاشت نہ کریں۔ کاشت کرنے سے پہلے کٹے ہوئے آلوؤں کو وائٹا ویکس  ۲ فیصد محلول میں  ۵ منٹ تک ڈبوئیں۔

آلو کی بھوری سڑن

آلو کی بھوری سڑن کی بیماری ایک طرح کی بیکٹیریا کی وجہ سے پھیلتی ہے۔ یہ لوکی ایک اہم اور خطر ناک بیماری ہے جو دنیا میں تقریباً آلو کاشت کرنے والے ہر ملک میں حملہ آور ہوتی ہے۔

پہچان

اس بیماری کے حملے سے سب سے پہلے پتے مرجھائے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ آہستہ آہستہ پیلےرنگ کے ہوتے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ پورا پودا مر جھا کر سوکھ جاتا ہے۔ زیر زمین آلو بھی بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ بیماری کے شدت اختیار کرنے کی صورت میں آلو کو ہلکا سا دبانے سے لیس دار مادہ نکلنا شروع ہو جاتا ہے۔

 روک تھام

  •  آلو کا بیج تندرست فصل سے حاصل کر کے کاشت کریں۔
  • بیماری سے قوت مدافعت رکھنے والی آلو کی قسم کاشت کریں۔
  •  فصلوں کا مناسب ہیر پھیر  کرتے رہنا چاہیے۔

پتہ لپیٹ وائرس (پتوں کا مڑ جاتا )

یہ آلو کی سب سے مہلک بیماری ہے۔ یہ ایک وائرسی مرض ہے۔ جو چھوٹے چھوٹے کیڑوں  کے ذریعے سے پھیلتی ہے ۔

پہچان

شروع شروع میں اس بیماری کے حملے سے پودوں کے پتوں کے کنارے اوپر اور اندر کی طرف گول ہو جاتے ہیں ۔ یعنی مڑ جاتے ہیں۔ اوپر کی پتیاں اکڑ جاتی ہیں۔ سخت ہو کر کھردری ہو جاتی ہیں۔ گرم موسم میں پتیوں کے کناروں پر گہرے سرخ رنگ کے دھبے (نشان) پیدا ہو جاتے ہیں۔ جب بیماری پھول آنے سے پہلے ظاہر ہو تو بیماری کی علامات نچلے پتوں پر پائی جاتی ہیں ۔ جبکہ فصل کے آخری دنوں میں بیماری کی کوئی علامت نہیں ملتی ۔ پتہ لپیٹ وائرس (لیف رول) سے متاثرہ فصل کے آلو (بیج) کاشت کرنے سے ان میں کئی ایک علامات پائی جاتی ہیں۔ مثلاً ایسے بیمار پودوں کے پتوں کی شکل شروع ہی سے ” چمچی کی مانند ہوتی ہے۔ ان کے کنارے اوپر کی جانب مڑ جاتے ہے۔ پتے موٹے اور سخت ہو جاتے ہیں۔ پودوں کی بڑھت میں رکاوٹ پیدا ہو جاتی ہے۔ اسے حملہ شدہ پودوں سے تیز ہوا کے چلنے سے کھڑ کھڑاہٹ کی سی آواز سنائی دیتی ہے۔

 بیماری پھیلنے کے اسباب

تیلا ، وائرسی بیماری پھیلانے کا اہم ذریعہ ہے۔ یہ کیڑے بیمار پودوں سے رس چوستے ہوئے ، بیماری کے جراثیم اپنے ساتھ لے جاتے ہیں اور جب یہ کسی تندرست پودے پر بیٹھتے ہیں تو اس میں بیماری کے وائرس داخل کر دیتے ہیں اور اس طرح بیماری پھیل جاتی ہے۔ میدانی علاقوں میں تیلے کی نشو ونما جنوری سے شروع ہو جاتی ہے۔ اس کی سب سے زیادہ  تعداد ( آبادی ) فروری اور مارچ کے مہینوں میں پائی جاتی ہے۔

یہ بیماری موسم بہار میں بہت زیادہ پھیلتی ہے اور اسی لئے آلو کی بہاریہ فصل وائرسی بیماری سے بہت زیادہ متاثر ہوتی ہے۔

اس بیماری سے متاثرہ فصل سے جو آلو حاصل ہوتے ہیں وہ بہت چھوٹے ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں پیداوار میں کمی آجاتی ہے۔

روک تھام

بیماری کی علامات کو سامنے رکھتے ہوئے کھیت سے متاثرہ پودوں کو جڑاور آلو سمیت نکال کر ضائع کر دیا جائے۔ ہمیشہ صحت مند اور تصدیق شدہ آلو کا بیج استعمال کریں۔ موسم خزاں کی فصل اس بیماری سے کم متاثر ہوتی ہے۔ کیونکہ خزاں کے موسم میں تیلہ کم تعداد میں پایا جاتا ہے۔ اس لئے موسم خزاں کی تندرست فصل سے آلو (بیج) حاصل کر کے کاشت کرنے سے اچھے نتائج مل  سکتے ہیں۔ تیلہ کی تلفی کیلئے آلو کی بجائی کے وقت تیلہ مارنے والی زہر کے استعمال سے تیلہ کی آبادی میں کمی پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔ فیوراڈان  ۱۰ کلوگرام فی ایکڑ کے حساب سے استعمال کریں۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "آلو کی بیماریاں"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

……………. آلو کی بیماریاں  ……………..

Leave a comment