زر کا ارتقا

زر کا ارتقا

زر کا ارتقا براہ راست تبادلہ کے نظام کی خامیوں نے انسان کو ایسا آلہ تبادلہ تلاش کرنے پر مجبور کر دیا جو متذکرہ بالا مشکلات پر قابو پا سکے اور لوگ اپنی ضروریات کی اشیا کا لین دین با آسانی کر سکیں۔ چنانچہ سب کو قابل قبول آلہ تبادلہ کی تلاش کے مختلف مراحل پر انسان نے مخصوص اشیا کو بطور زر استعمال کیا جو اپنے اپنے دور کے نظام کی تہذیبی ، معاشی اور صنعتی ترقی کی عکاسی کرتے ہیں۔ زر کے ارتقا کے سلسلے میں استعمال ہونے والی اشیا کے بسلسلہ ادوار کوئی قطعی تقسیم بندی نہیں کی جاسکتی کیونکہ کسی ایک ہی دور میں بیک وقت ایک سے زیادہ قسم کے زر استعمال ہوتے رہے ہیں۔ لہذا ارتقائی نقطہ نظر سے زر کی اقسام کی وضاحت درج ذیل طریقہ سے کی جاسکتی ہے۔

زر کا ارتقا

اشیائی زر یا اجناسی زر

 چونکہ انسانی تمدن کے اولین دور میں نہ تو زر موجود تھا اور نہ ہی کوئی ایسی شے دستیاب تھی جو کہ اشیا کے لین دین میں سب کو قابل قبول ہو اور لوگ اپنی ضروریات کی اشیا اس شے کے بدلے حاصل کر سکیں۔ چنانچہ مختلف وقتوں میں مختلف اشیا کو بطور ز ر آزمایا گیا۔ جن میں جانور کھالیں، تیر، غلہ، سیپ، پتھر ، کوڑیاں، تمباکو، زیتون کا تیل، تانبا، لوہا، چاندی، سونا ، اور ہیرے قابل ذکر ہیں ۔ اشیائی زر آج سے تقریباً دو ہزار سال قبل تک لوگوں کی صرفی مقاصد کے لیے استعمال ہوتا رہا۔ جنہیں علاقے کی جغرافیائی ، مومی، تہذیبی اور معاشی حالات کے طابق افراد ہے لیکن زرکی اقسام میںکوئی کوئی موجد تھا کی وجہ مطابق افراد استعمال کرتے رہے لیکن زر کی ان اقسام میں کوئی نہ کوئی نقص موجود تھا ۔ جس کی وجہ سے یہ مستقل آلۂ تبادلہ کی حیثیت سے استعمال نہ ہو سکے مثلاً مویشی ( گائے بھینس، بکری وغیرہ ) نا قابل تقسیم ہوتے تھے ۔ ضیاع پذیر اشیا کا پھل ، سبزیاں وغیرہ  ذخیرہ کرنا مشکل تھا اور کئی اشیا کا وزن زیادہ ہونے کے باعث نقل پذیری مشکل کا باعث بنتی تھی۔ چنانچہ ان حالات میں انسان نے اچھے زر کے حصول کے لیے اپنی جد و جہد اور تلاش جاری رکھی اور اشیائی زرکوخیر باد کہ کر دھاتوں مثلاً سونا، چاندی وغیرہ کو بطور زر استعمال کرنا شروع کر دیا۔

اشیائی زر یا اجناسی زر

دھاتی زر

 بطور زرقیمتی دھاتوں مثلاً سونا چاندی وغیرہ کا استعمال قبل از مسیح کے دور سے شروع ہو کر انیسویں صدی کے آخر تک رائج ر انیسویں صدی کے اختتام پر انسانی تہذیب کے فروغ کے ساتھ ہی کاروباری سرگرمیاں غلہ بانی کا شتکاری کے دور سے نکل کر زرعی و صنعتی تجارت کے دور میں داخل ہوگئیں ۔ تاجروں کو خام مال کی خرید و فروخت کے لیے دور دراز کے علاقوں میں اپنی ادائیگیاں چکانے کیلئے ایسے آلہ تبادلہ کی ضرورت تھی جو مالیت میں زیادہ اور وزن میں کم ہو۔ چنانچہ انیسویں صدی کے آخر میں اشیا کی جگہ سونے چاندی کے سکوں کو آلہ تبادلہ کے طور پر استعمال کیا جانے لگا۔ یہ دھاتی سکے بلا روک ٹوک اشیا کے لین دین میں استعمال ہوتے رہے لیکن ان سب میں بھی کچھ نقائص پائے جاتے تھے مثلاً سونے چاندی کے سکوں پر میل جم جاتی تھی جس سے ان کی شکل دھندلا جاتی تھی ۔ ان سکوں میں کھوٹ شامل کر دی جاتی تھی۔ جس کی وجہ سے جعلی اور کھرے سکوں میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ قیمتی دھاتوں کی رسد محدود ہوتی تھی اس لیے تجارت کی توسیع کے ساتھ ساتھ معیاری سکوں کی مقدار میں مطلوبہ شرح سے اضافہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ اس کے علاوہ دھاتی سکوں کو بڑی مقدار میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان کام نہ تھا۔

دھاتی زر

کاغذی زر

چونکہ دھاتی سکے وزن دار ہونے کے باعث ان کو بڑی مقدار میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا اس لیے دھاتی سکوں کی جگہ کاغذی زر نے لے لی ۔ جن کو حکومت یا حکومت کا نمائندہ ادارہ مرکزی بنک جاری کرتا ہے۔ کاغذی زر مختلف مالیت کے کرنسی نوٹوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس وقت دنیا کے تمام ممالک میں کاغذی زرہی اشیا کے لین دین میں استعمال ہوتا ہے۔ کاغذی زر میں آلہ تبادلہ کے طور پر استعمال ہونے کی تمام خوبیاں موجود ہیں جو کہ کسی اچھے زر میں موجود ہونی چاہیں مثلاً کاغذی زروزن میں ہلکا اور قدرو مالیت میں زیادہ ہوتا ہے۔ ان کو آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکتا ہے۔ نوٹ جاری کرنے والے ادارے کا خاص قسم کے طباعتی طریقہ کار کے تحت جعلی نوٹوں کا اجرا روکا جاسکتا ہے۔ کاغذی نوٹ حکومت کے واضح کردہ طریقہ کار کے تحت ایک خاص مقدار میں چھپ سکتے ہیں اس لیے ان کی کامیابی اور قدرو مالیت کو موثر بنا کر قبولیت عامہ کا وصف بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

اعتباری زر

اعتباری زر ایک ایسی قانونی تحریر ہے جس کا دستخط کنندہ اس تحریر کے حامل ہذا کو درج شدہ رقم ادا کرنے کا پابند ہوتا ہے۔ اعتباری زر بھرو سے یا اعتبار کی بنیاد پر معیشت میں گردش کرتا ہے۔ تجارتی بنکوں کے جاری کردہ ڈرافٹ ، چیک، پے آرڈر، ہنڈیاں، کریڈٹ کارڈز وغیرہ اعتباری زر کہلاتے ہیں ۔ اس وقت دنیا کے تمام ممالک میں مقدار زر کا ایک نمایاں حصہ اعتباری زر پرمشتمل ہے ۔ اس لیے معیشت کی تمام معاشی و ترقیاتی سرگرمیاں اعتباری زر کی گردش سے وابستہ ہیں۔ اس طرح کاروباری ادائیگیوں اور وصولیوں میں زراعتبار بطور آلہ تبادلہ وسیع پیمانے پر استعمال ہو رہا ہے۔ زراعتبار کی اہمیت کا انداز و اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نہ صرف اس کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے بلکہ اس کی نئی اقسام وجود میں آ رہی ہیں۔ شکل میں عام قوت خرید کا ذخیرہ کیا جاتا ہے”۔ جے ایم کینز کی تعریف کو ہم درج ذیل حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں جس کی بنیاد پر زر کی تعریف واضح ہوگی ۔ الف اُدھار کے معاہدے بھی مستقبل کی ادائیگیاں ان سے مراد اشیا کے لین دین کے معاملے میں وہ ادائیگیاں ہیں جن کو مستقبل میں چکانے کا وعدہ کیا گیا ہو۔ لہذا زر مستقبل کی ادائیگیوں میں معیار کا کام سر انجام دیتا ہے۔ قیمت کے معاہدے بحیثیت پیائی قدر : چونکہ قیمتوں کی ادائیگی کے لیے زر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لیے زر مال کی ادائیگی کے لیے دنیا نہ قدر کا کام بھی دیتا ہے۔ معاہدوں کی ادائیگیاں چکانا بحیثیت آلہ تبادلہ : زر آلہ تبادلہ کی حیثیت سے مستقبل کی ادائیگیاں چکانے میں کام آتا ہے۔ قبولیت عا زرکو اشیا کے لین دین میں بلا حیل و حجت قبول کر لیا جاتا ہے کیونکہ اسے قبولیت عامہ حاصل ہوتی ہے۔ ج ذخیر و قدر: چونکہ زر کی صورت میں دولت کا ذخیرہ کیا جاسکتا ہے اس لیے زر بحیثیت ذخیرہ بھی استعمال ہوتا ہے۔ جے ایم کینز کی تعریف کا جائزہ لینے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ اس کی تعریف زر کے تمام ممکنہ فرائض کا احاطہ کرتی ہے۔ یعنی مستقبل کی ادائیگیوں کے معیار، پیمانہ قدر، آلہ تبادلہ اور ذخیرہ قدر وغیرہ۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو زر کا ارتقا  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔

افادہ

معاشیات کی نوعیت اور وسعت

MUASHYAAAT.COM 👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment