بھنڈی کی بیماری ⇐ بھنڈی کی فصل اکھیڑا” کی بیماری سے بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
اکھیڑا
اکھیرے کی بیماری پر بھنڈی کی فصل کو بے حد نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ ایک خاص پھچھوندی سے پھیلتی ہے جس کو میکروفومینا فاسکولیو کہتے ہیں۔
پہچان
اس بیماری کا حملہ جون کے مہینے میں شروع ہو جاتا ہے اور اکتوبر تک جاری رہتا ہے۔ جولائی کے مہینے میں یہ بیماری زور پکڑ جاتی ہے۔ اس بیماری کے حملے سے پتے پیلے رنگ کے ہو جاتے ہیں۔ مرجھا جاتے ہیں اور بعد میں کمزور ہو کر مر جاتے ہیں۔ یہ بیماری یا تو کھیت میں ادھر ادھرا کیلے پودے پر حملہ آور ہوتی ہے یا پھر ٹکڑوں کی شکل میں پائی جاتی ہے۔ ایسے متاثرہ پودوں کو اکھاڑنے پر ان کی جڑیں کٹی پھٹی شکل میں ہوتی ہیں۔ ان پر سیاہ دھبے ہوتے ہیں جن کو دبانے سے بد بودار مادہ خارج ہوتا ہے۔ بھنڈی کے علاوہ یہ بیماری اور بہت سے پودوں پر حملہ آور ہوتی ہے جن میں آلو، ٹماٹر، مونگ، ماش، مونگ پھلی اور تمباکو وغیرہ شامل ہیں۔
روک تھام
متاثرہ کھیت میں مناسب فصلوں کا ہیر پھیر کرتے رہنا چاہیے۔ جس کھیت میں اکھیڑے کی بیماری کا حملہ رہ چکا ہو اس کھیت میں کم از کم ۳ ۴ سال تک بھنڈی کاشت نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بات بھی اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ آلو ، ٹماٹر، مونگ ، ماش ، مونگ پھلی اور تمباکو وغیرہ جیسی متبادل (میزبان) فصلیں کاشت نہ کی جائیں کیونکہ ایسی تمام فصلیں اس بیماری سے بری طرح متاثر ہوتی ہیں۔ بھنڈی کی قوت مدافعت رکھنے والی قسم کاشت کی جائیں۔ بھنڈی کی قسم ۱۵ اکھیڑے کی بیماری کا کسی حد تک مقابلہ کر سکتی ہے۔ اگیتی کاشت کی گئی بھنڈی کی فصل نسبتا اس بیماری سے محفوظ رہتی ہے۔ فروری مارچ میں ہوئی ہوئی بھنڈی کی فصل بیماری سے بچی رہتی ہے جبکہ دیر سے مارچ کے بعد کاشت کرنے سے فصل اکھیڑے کی بیماری سے بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
آڑو کی بیماریاں
آڑو پر مندرجہ ذیل بیماریاں حملہ کرتی ہیں۔
- آڑو کے پتوں کا مڑنا
- آڑو کی زرد کنگی
آڑو کے پتوں کا مڑنا
لیف کرل یعنی پتوں کے مڑنے کی بیماری پاکستان میں ہر اس علاقے میں پائی جاتی ہے جہاں آڑو کی کاشت ہوتی ہے۔
پہچان
لیف کرل کا حملہ درخت کے مختلف حصوں یعنی ٹہنیوں، پھولوں اور پھلوں پر ہوتا ہے۔ بیماری کا اثر اس وقت ہوتا ہے جب پتیاں ابھی نئی نئی نکل رہی ہوں ۔ تو نمایاں علامات کچھ اس طرح ہیں۔ پتیوں میں سلوٹیں سی بن جاتی ہیں۔ چھوٹے چھوٹے چھالے سے پڑ جاتے ہیں اور چڑ مڑ ہو جاتی ہیں۔ پتوں کی رگیں پھولی پھولی دکھائی دیتی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ متاثرہ پتوں کا رنگ بھی تبدیل ہو جاتا ہے۔ پتے سوکھ کر درختوں سے جھڑ نے لگتے ہیں۔ تازہ چھوٹے چھوٹے پتوں کا رنگ سرخی مائل ارغوانی ہو جاتا ہے جبکہ پرانے اور بڑے پتے پیلے رنگ کے ہو جاتے ہیں۔ بیماری کی صورت میں شاخیں پھول کر موٹی ہو جاتی ہیں اور آخر کار خشک ہو جاتی ہیں۔ بیماری سے متاثرہ پھول بھی سوکھنے لگتے ہیں اور جھڑ جاتے ہیں۔ بیماری پھلوں پر بھی حملہ آور ہوتی ہے جس کے نتیجے میں متاثرہ پھل بد نما اور بدشکل ہو جاتے ہیں اور درختوں سے گرنے لگتے ہیں۔
پھیلنے کے اسباب
لیف کرل ایک طرح کی پھپھوندی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جس کو تپھڑنا دفورمانس کہتے ہیں۔ بیماری کے بیج نئی شاخوں کی چھال اور چشموں پر موجود ہوتے ہیں اور موسم بہار میں بیماری پھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔ ٹھنڈا اور نمی والا موسم آڑو کے لیف کرل کی بیماری کیلئے بہت سازگار ہوتا ہے۔
روک تھام
درختوں کی متاثرہ شاخوں اور پتوں وغیرہ کو اکٹھا کر کے جلا دیں۔ چشموں کے پھوٹنے سے پہلے سردی کے موسم میں (۵:۵:۵۰) کی طاقت / تناسب کا بورڈ مکسچر کا سپرے کریں۔ آڑو کے پھل کی برداشت کے بعد پھپھوند کش زہر کی سپرے بیماری کی روک تھام میں بہت موثر اور مفید رہتی ہے۔
زہروں کی سپرے کے بارے میں آپ محکمہ زراعت کے کارکنوں سے مشورہ ضرور کریں۔
آڑو کی زرد کنگی
آڑو کی زرد گنگی پتوں کی نچلی سطح پر چھوٹے چھوٹے دھبوں ( نشان) کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔ ان دھبوں کا رنگ زرد ہوتا ہے۔ ان دھبوں میں سفید سفونی مواد موجود ہوتا ہے اور دراصل یہی بیماری کے بیج ہوتے ہیں جو بیماری پھیلانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ان دھبوں کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ پتوں کا رنگ بھی زیادہ زرد ہوتا جاتا ہے۔ بیماری کے حملے سے درختوں سے پتے بھی جھڑ نے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں درختوں کی بڑھت رک جاتی ہے۔ بیماری پھلوں پر بھی پہنچ جاتی ہے جن پر دھبے پڑ جاتے ہیں۔
پھیلنے کے اسباب
آڑو کی زرد گنگی ایک قسم کی پھپھوندی کی وجہ سے پھیلتی ہے ۔ اس بیماری کے بیچ سردیوں کے موسم میں ست حالت میں پڑے رہتے ہیں اور جب موسم بہار میں موسم موافق ہوتا ہے تو درختوں کے متاثرہ حصوں پر بیماری کے بیجوں کی نشو و نما ہونے لگتی ہے جو آڑو کی نکلی ہوئی نئی نئی پتیوں پر حملہ کرتی ہے اور اس طرح بیماری پھیل جاتی ہے۔
روک تھام
موسم سرما میں درختوں کی کانٹ چھانٹ کریں اور حملہ شدہ شاخوں کو جلا دیں۔ مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک زہریلی دوا کا سپرے بیماری کے شروع ہوتے ہی کر دیں۔
- کیپٹین
- تھائیرام
- زائنیب
کسی ایک زہر کا ۱۰۰ گرام (۲ پونڈ وزن لیکر ۴۵۰ لیٹر ( ۱۰۰ گیلن ) پانی میں محلول تیار کر لیں اور ۲۰ دن کے وقفے سے تین مرتبہ سپرے کریں۔
انار کی بیماری
انار کو مندرجہ ذیل بیماری نقصان پہنچاتی ہے۔
انار کے پھل کی سڑن
یہ بیماری ہر اس علاقے میں پائی جاتی ہے جہاں انار کے باغات پائے جاتے ہیں۔ صوبہ بلوچستان کے ضلع اورلائی میں عام پائی جاتی ہے اور انار کی پیداوار میں ایک رکاوٹ بنتی جارہی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس بیماری سے تقریبا 25 فیصد پھل گل سڑ کر ضائع ہو جاتا ہے۔
پہچان
شروع میں اس بیماری کے حملے سے پھل نرم ہو جاتا ہے۔ پھل کے چھلکوں کا رنگ گہرا بھورا ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ بیماری کا حملہ پھل کے دانوں میں بھی ہو جاتا ہے۔ اگر ایسے حملہ شدہ انار کے پھل کو کاٹ کر دیکھیں تو اس کے اندر کے دانوں کے ارد گرد کا گودا پیلا اور سڑا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ اور رنگ بھی سیاہ ہو جاتا ہے۔ حملہ شدہ پھل پر دراڑیں پڑ جاتی ہیں اور سوکھ جاتے ہیں۔
پھیلنے کے اسباب
یہ بیماری ایک قسم کی پھپھوندی کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ جس کوزیتھیا ورسونیانا کہتے ہیں۔ بیماری کے بیچ انار کے سوکھے ہوئے پھلوں پر چاہے وہ درختوں پر لٹکے ہوئے ہوں یا زمین پر ادھر ادھر بھرے ہوئے ہوں موجود ہوتے ہیں بیماری پھیلانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
جولائی اگست میں بارشوں کی وجہ سے ہوا میں نمی بڑھ جاتی ہے جو انار کے پھل کی سڑن کی بیماری کے پھیلنے کا سبب بنتی ہے۔
روک تھام
سردیوں کے موسم (دسمبر جنوری میں انار کے درختوں پر لٹکے ہوئے سوکھے ہوئے تمام انار اور ان کی ڈنڈیاں وغیرہ کاٹ لیں اس کے علاوہ باغات میں بیماری سے متاثرہ بکھرے ہوئے پھلوں کو بھی چن لیا جائے اور بیمار ٹہنیوں کو بھی کانٹ چھانٹ کر لیں اور ایک ڈھیر میں اکٹھا کر لیں اور جلا دیں۔ مندرجہ ذیل میں سے کسی ایک زہر کی مدد سے انار کے درختوں پر سپرے کریں۔ پیری ناکس 600 سے 900 گرام (105 سے پونے 100 گیلین پانی میں اچھی طرح حول تیارکریں۔ یابورڈو مکسچر(5:5:50) کی طاقت / تناسب استعمال کریں۔ او پر دی گئی زہروں میں سے کسی ایک زہر کی سپرے فروری کے شروع میں کر دینی چاہئے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "بھنڈی کی بیماری" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
……………… بھنڈی کی بیماری …………….