جرائم کا تدارک انسداد جرائم سے مراد

جرائم کا تدارک انسداد جرائم سے مراد ⇐ انسداد جرائم سے مراد وہ طریقے ہیں جو جرائم کو روکنے کیلئے حفظ ماتقدم کے طور پر جرم کے رونما ہونے سے پہلے اختیار کئے جاتے ہیں۔ جرم اگر رونما ہو جائے تو پھر روک تھام کی بجائے اس کی اصلاح کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے۔

جرائم روکنے کیلئے مناسب تجاویز تو وہ ہیں

جو اس کے بنیادی اسباب اور محرکات کا پتہ لگاتی ہیں۔

 اصل اسباب کا سد باب نہ کیا جائے تو

جرائم پر مکمل طور پر قابو نہں پایا جاسکتا۔

جرائم پر جتنی تحقیقات ہوئی ہیں

جرائم کا تدارک انسداد جرائم سے مراد

بنیادی محرکات

ان کے مطابق اس کے بنیادی محرکات میں شکستہ گھروں کا وجود، والدین کی غیر ہم آہنگ زندگی اور ان کی ناچاقی بچوں پر بہت زیادہ یا بہت کم سختی و نرمی غلیظ علاقے بری صحبت معاشرتی و معاشی ناہمواریاں معاشی و سماجی نا انصافی جہالت و غربت کی زیادتی مذہب سے دوری خدا خوفی کا فقدان خراب ما حول عدل و انصاف اور قانون کے اداروں میں بدعنوانیاں و غیر ہ مذکورہ جرائم کے مشہور اسباب میں شمار ہوتے ہیں۔

محرکات کے پیش نظر جرائم

ان اسباب اور محرکات کے پیش نظر جرائم کا انسداد ایک مربوط نظام کا تقاضا کرتا ہے۔ تدارک کا خواہ کوئی نظام بھی ہو اس میں درج ذیل حقائق کومد نظر رکھا جانا چاہیے۔

 انسداد جرائم کے بنیادی حقائق

مجرموں کی بہت ساری قسمیں ہوتی ہیں بعض تو عادی اور پیشہ ور ہوتے ہیں اور زیادہ تر ایسے افراد ہوتے ہیں جو کسی ہنگامی یا وقتی جذبات کے زیر اثر جرائم کر بیٹھتے ہیں۔ مجرموں کی ان دونوں اقسام کیلئے انسداد جرائم کی تجاویز ایک جیسی نہیں ہوتیں۔

پاکستان میں جرائم

پاکستان میں جرائم زیادہ تر دیہات میں ہوتے ہیں اور یہ جرائم زیادہ ترانسانی ذات اور جائیداد کیخلاف ہوتے ہیں۔ جرائم کرنے والے کوئی پیشہ ور افراد نہیں ہوتے بلکہ عام انسان ہوتے ہیں جو مخصوص معاشرتی اور ثقافتی ماحول کے زیر اثر اور آن اور وقار کی خاطر جرائم کرتے ہیں۔

ثقافتی حالات

قانون خواہ مجرم کو سزا دے ڈالے ۔  لیکن مخالف فریق کے انتقام کی آگ اس وقت تک ٹھنڈی نہیں ہوتی جب تک وہ خود اس کا انتقام نہ لے۔ جرائم کے تدارک کیلئے ان مخصوص معاشرتی اور ثقافتی حالات کو مد نظر رکھنا چاہیے۔

مجرمانہ کردار کا آغاز

مجرمانہ کردار کا آغاز زیادہ تر عہد بلوغت میں ہوتا ہے۔ اگر اس کا تدارک راسخ ہونے سے پہلے کر دیا جائے تو جرائم کم ہو سکتے ہیں۔ اگر مجرمانہ کردار راسخ ہو جائے اور وہ عادت ثانیہ بن جائے تو مسئلہ پھر تدارک کا نہیں رہ جاتا بلکہ اصلاح کا ہوتا ہے۔

مجرمانہ کردار کا آغاز

جرم کے انسدادی پروگرام

جرم کے انسدادی پروگرام کو موثر بنانے کیلئے ضروری ہے کہ مجرمانہ فعل کے اصل اسباب کا کھوج لگایا جائے اور علامات کی بجائے نظر بنیادی اسباب پر ہونی چاہیے۔

 خاندان کا کردار

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ جرائم پیشہ افراد کی زیادہ تر تعداد شکستہ گھروں کی پیداوار ہوتی ہے۔ لہٰذا اگر جرائم کو روکنا ہو تو اس سلسلے میں خاندان کا کردار بڑا موثر ہو سکتا ہے۔

خاندان میں باہمی محبت والفت

بچے کی نشونما میں اس کا خاندان بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ بچے کے ابتدائی تفاعلی تجربات اس کے خاندان کے افراد کے ساتھ بڑھتے ہیں اور یہیں سے وہ تصور ذات کی نشو و نما لسانی مہارت اور آموزش اقدار کا اظہار کرتا ہے

گھریلو ماحول

اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ بچے کے گھریلو ماحول میں مروج اخلاق و آداب ہی اس کی شخصیت کا حصہ بن جاتے ہیں اور اس کے ضمیر کی تعمیر میں ان کے اخلاق و آداب کا کردار مرکزی حیثیت اختیار کر جاتا ہے۔

مروجہ اخلاق

خاندان میں اگر گہرے جذباتی رشتے ہوں اور آپس میں محبت و ایثار کا تعلق ہو تو گھر کے افراد کی زندگی سکھ اور چین سے گزرتی ہے اور بچوں کی شخصیت پر اس کے مثبت اثرات پڑ تے ہیں بچےاس لئے بھی خاندان میں مروجہ اخلاق و آداب کو اپنانے پر مجبور ہوتے ہیں کہ ان کی ضروریات کلی طور پر خاندان ہی پوری کرتا ہے

قانون پرست

خاندان کی اقدار کو نظر انداز کر کے بچہ اپنی ضروریات پوری نہیں کر سکتا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو بچے مکمل طور پر خاندان پر انحصار کرتا ہے اس لئے مستقبل میں اس کو قانون پرست بنانے کیلئے ضروری ہے کہ اس کے گھریلو ماحول کو بہتر بنایا جائے ۔

 بچے کو احساس تحفظ دیا جائے

بچے کا پہلا نفسیاتی مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ لوگ اس کی اہمیت کو تسلیم کریں۔ اس کی ذہنی جسمانی ضروریات اگر پوری ہوتی رہیں تو ہ کسی قسم کی نفسیاتی الجھن کا شکار نہیں ہوتا۔ اس کے برعکس اگر بچے کو یہ احساس ہونے لگے کہ خاندان میں اس کی کوئی عزت نہیں تو اس کا سکون چھن جاتا ہے اور وہ بے راہ روی کا شکار ہونے لگتا ہے۔

 بچے کو احساس تحفظ دیا جائے

شخصیت

خاندان کا یہ فرض ہے کہ وہ بچے کو ہر قسم کا تحفظ فراہم کرے۔ اگر بچے کی خوراک و پوشاک کا خاطر خواہ انتظام نہ کیا جائے تو اس کی شخصیت میں دکھ اور مایوسی پیدا ہونے کا امکان ہوتا ہے جو بعض اوقات اس کی بے راہ روی اور خطا کاری کی طرف پہلا قدم ہوتا ہے۔

 بچوںکو توجہ دی جائے 

بعض والدین بچوں سے نہایت بے توجہی سے پیش آتے ہیں اور ان کی ضروریات کو پورا نہیں کرتے۔ پاکستان میں تو یہ صورتحال اس قدر سنگین ہے کہ پڑھے لکھے والدین بھی بچوں کی نفسیاتی و سماجی ضروریات سے کوتاہی برتتے ہیں اور اس طرح ان کیلئے شدید جذباتی الجھنوں کے مواقع فراہم کرتے رہتے ہیں۔ ارک ارلسن جیسے مفکر کا خیال ہے کہ والدین کے اس نار وار رویے کے سبب بچوں کی نشو و نما میں خلا رہ جاتے ہیں اور وہ سن بلوغت کو پہنچتے ہی عدم تحفظ اور بے راہ روی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

 بچوں کی اچھی تربیت خاندان کی ذمہ داری

در اصل بچوں کی بے راہ روی میں گھر کے برے ماحول اور ناقص نگرانی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ والدین کو آج کل اقتصادی و سماجی ذمہ داریوں سے بہت کم وقت ملتا ہے۔ بچے اپنا بیشتر وقت گلی کوچوں اور آوارہ مزاج لوگوں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ بچوں کو نیک و بد بنانے میں دوستوں کی صحبت کافی اہمیت رکھتی ہے۔

بچوں کی صحبت

پڑوس میں اچھے برے ہر قسم کے بچے ہوتے ہیں۔ والدین کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کو سلجھے ہوئے بچوں کی صحبت سے مستفید ہونے کے مواقع فراہم کریں اور انہیں بے راہ رو بچوں کی صحبت سے بچائیں تاکہ وہ نیکی کے راستے پر گامزن رہیں ۔ بچوں کیلئے صالح تعلیم وتربیت کی سخت ضرورت ہے۔ والدین کا فرض ہے تا کہ وہ ان کو اسلامی اقدار و نظریات اور قانون کی اہمیت سے آگاہ کریں تا کہ مستقبل کے رہنماؤں کو صالح زندگی بسر کرنے میں آسانی رہے۔

بچوں کی صحبت

تربیت اطفال

ضرورت اس بات کی ہے کہ تربیت اطفال پر معیاری کتابیں لکھوائیں اور انہیں سکولوں اور کالجوں کے نصاب میں شامل کیا جائے کیونکہ بچوں کے مسائل کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کیلئے تربیت اطفال کی تعلیم کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کوجرائم کا تدارک انسداد جرائم سے مراد  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

    MUASHYAAAT.COM

………جرائم کا تدارک انسداد جرائم سے مراد ………

Leave a comment