درآمدی پالیسی ⇐ پاکستان میں درآمدات سرکاری کنٹرول میں ہیں۔ کوئی شخص یا ادارہ حکومت کی اجازت کے بغیر یعنی لائسنس کے بغیر کسی ملک سے کوئی چیز در آمد نہیں کر سکتا۔ حکومت سال میں دو مرتبہ در آمدی پالیسی کا اعلان کرتی ہے۔ ہر پالیسی چھ ماہ کسی جولائی تا دسمبر اور جنوری تا جون ) کے عرصے کے لئے مؤثر ہوتی ہے۔ ہماری در آمدات کو دو حصوں میں بانجا جا سکتا ہے۔ اول از وہ در آمدات جو حکومت خود کرتی ہے مثلا کونکہ اناج اور دفاع کا سامان۔ روتم: وہ اشیاء جولائسنس حاصل کرنے کے بعد منگوائی جاسکتی ہیں ۔
در آمدات کی نوعیت
ہماری درآمدی اشیا کی نوعیت تین طرح کی ہے۔ پہلی قسم اشیائے سرمایہ کی ہے یعنی مشینیں، پلانٹ ، فاضل پرزے وغیرہ ۔ دوسری قسم صنعتی خام مال کی ہے، اس میں لوہا فرا اور تیل و پلرول اور دھاتیں وغیرہ شامل ہیں۔ تیسری قسم شیائے صارفین کی ہے ۔ ان اشیاء میں کاربن ، زیبائش کا سامان ، کپڑا، آرائشی سامان وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان کی چند در آمدات درج ذیل ہیں۔
لوہا اور فولاد
لوہا اور قولا و صنعتی ترقی کے لئے بنیادی اہمیت رکھتے ہیں۔ معاشی ترقی کے ساتھ ساتھ پاکستان میں ان کی درآمد بڑھتی چلی گئی ہے۔ ہر شعبہ کا ساز وسامان انہی دو چیزوں سے بنتا ہے ۔ یہ دونوں ہی ہمارے ہاں پیدا نہیں ہوتیں۔ ہمارا فولاد کا پہلا کارخانہ کراچی میں کام کرنا شروع کر چکا ہے۔
ذرائع
لو ہے اور فولاد کی درآمد پاکستان میں امریکہ برطانیہ، جرمنی، فرانس اور جاپان سے ہوتی ہے۔
مالیت
میں لو ہے اور فولاد کی درآمد پر 294.0 ملین ڈالرخر لین ڈالر خرچ ہوا جبکہ 08-2007 ء میں ان کی درآمدی مالیت 511.6 ملین ڈالر سے تجاوز کر گئی ۔
پٹرول
صنعت، ریلوے، ٹرانسپورٹ اور دیگر تجارتی شعبوں کی رتی شعبوں کی ترقی و توسیع کے لئے پٹرول قوت محرکہ کا کام کرتا ہے۔ پٹرول خود ہمارے ہاں بھی پیدا اور صاف را اور صاف ہوتا ہے مگر ہماری مجموعی ضروریات کے مقابلے میں اس کی رسد محدود ہے۔ طلب درسہ کے درمیان پایا بہانے والا فرق در آن الا فرق درآمد سے پورا کیا جاتا ہے۔
ذرائع
ہمیں بھی دیگر ممالک کی طرح پٹرول ہے امارات وغیرہ سے پاکستان تیل اور پر نیلی اور پھر دل درآمد کرتا ہے۔
خوردنی تیل
خوردنی تیل کے معاملے میں بھی پاکستان خود کفیل نہیں ۔ روز مرہ استعمال میں آنے والا خوردنی تیل کافی بڑی مقدار میں درآمد کیا جاتا ہے۔ اگر چہ اب اس کی مقامی پیداوار میں کچھ اضافہ ہوا ہے۔ مگر خود کفالت کی منزل ابھی بہت دور ہے۔
ذرائع
خوردنی تیل پاکستان کو مہیا کرنے والے ممالک میں امریکہ، کینیڈا، برطانیہ اور آسٹریلیا شامل ہیں۔
مالیت : 07-2006 ء میں خوردنی تیل کی درآمد پر قریبا 4. 768 ملین ڈالر صرف ہوا جبکہ اس مد میں 08-2007 ء میں 309.2 ملین ڈالر سے زیادہ خرچ ہوا۔
خوردنی اجناس
لگا تار کوششوں کے طفیل پاکستان 81-1980ء میں آکر خوراک والی اجناس کے سلسلے میں خود کفیل ہو گیا ہے مگر اس سال سے پیشتر تک حالت یہ تھی کہ دالیں، آٹا اور دوسری خوردنی اجناس باہر سے درآمد کی جاتی تھیں تا کہ عوام کو خوراک کی قلت کا سامنا نہ ہو۔
رائع
خوردنی اجناس جن ملکوں سے درآمد کی جاتی رہی ہیں ان میں امریکہ کینیڈا اور آسٹریلیا شامل ہیں۔
مالیت
میں خوردنی اجناس کی درآمد پر تقریبا 2371.8 ملین ڈالرخرچ ہوا جبکہ 08-2007 ء میں ان کی درآمد پر تقریب 7. 3523 ملین ڈالر خرچ کرنا پڑا۔
کھاد
بنیادی طور پر زرعی ملک ہونے کے ناطے سے پاکستان کو اپنی کثیر زرعی آبادی کی ضروریات کا خیال رکھتے ہوئے کھادیں باہر سے منگوانی پڑتی ہیں ۔ زرعی پیداوار میں ترقی کا دارو مدار کھادوں کی فراہمی پر ہے ۔ حکومت اس سلے میں اعانہ دیتی ہے۔ چند کارخانے ہیں۔ مگران سلسلے میں اعانہ بھی دیتی ہے۔ کھار کے چند کار خانے ہمارے ملک میں کام کر رہے ہیں۔ مگر ان کی مجموعی پیداوار ہماری کل طلب سے بہت کم ہے۔
ذرائع
پاکستان 07-2006 ء میں کیمیاوی کھادوں کی درآمد کی مد پر 280.9 ملین ڈالر خرچ ہوا جبکہ 08-2007 ء میں یہ خرچہ بڑھ کر زیادہ تر امریکہ، جرمنی ، آسٹریلیا اور فرانس سے کھادیں درآمد کرتا ہے۔
مشینیں
صنعتی، تجارتی اور زرعی شعبے کے لئے مشینیں بہت اہمیت رکھتی ہیں۔ مشینوں کے استعمال سے وقت کی بچت . لاگت میں کمی اور پیداوار میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہ ملک میں بھی بنتی ہیں اور باہر سے درآمد بھی کی جاتی ہیں۔
ذرائع
یہ مشینیں زیادہ تر یورپی اور امریکی ملکوں کے علاوہ چین اور جاپان سے بھی منگوائی جاتی ہیں۔
مالیت
میں بجلی اور اس کے بغیر چلنے والی مشینوں کی درآمد پر 3953.6 ملین ڈالر کا خرچہ ہوا ۔ 08-2007 ء میں یہ خرچ بڑھ کر 4224.5 ملین ڈالر ہو گیا۔
ٹرانسپورٹ
ریلوے، سڑکوں اور دوسرے نقل وحمل کے ذرائع کیلئے ساز و سامان بھی باہر سے منگوایا جاتا ہے۔ اس شعبہ میں بھی در آمدی خرچ بڑی تیزی سے بڑھ رہا ہے جو دراصل معاشی ترقی کا تقاضا ہے ۔ بہیں ، ٹرک، پک اپ ، موٹریں، فاضل پرزے اور ریلوے کا سامان اس شعبے میں شامل ہے۔
ذرائع
ٹرانسپورٹ کا سامان جاپان، جرمنی ، چین، امریکہ اور یورپی ممالک سے درآمد کیا جاتا ہے۔ مالیت: ٹرانسپورٹ کا سامان منگوانے پر 07-2006ء میں پاکستان نے 1199.7 ملین ڈالر خرچ کیا یہ خرچ 08-2007 ء میں کم ہو کر 1096.3 ملین ڈالر ہو گیا۔
تجارتی پالیسی
غیر ممالک سے تجارت کے میدان میں ہر ملک مخصوص ترجیحات رکھتا ہے۔ کسی ملک سے وہ تجارت کرنا چاہتا ہے۔ کسی سے وہ تجارت کا خواہشمند نہیں ہوتا۔ کسی ملک سے وہ صرف در آمدات کرتا ہے اور کسی سے صرف بر آمدات اور کسی سے درآمدی اور برآمدی دونوں رشتے استوار کرتا ہے۔ کسی ملک سے تجارتی معاہدے کرتا ہے اور کسی سے نہیں کرتا کسی ملک کو تجارت میں ٹیکس کی چھوٹ دیتا ہے اور کسی ملک پر پہلے سے بھی زیادہ محصولات عائد کر دیتا ہے۔ بہر حال غیر ممالک سے تجارت کے شعبے میں کوئی ملک جس راستے کا انتخاب کرتا ہے اسے اس کی تجارتی پالیسی کہتے ہیں
پاکستان کی تجارتی پالیسی
پاکستان کی تجارتی پالیسی کا جائزہ تین عنوانات کے تحت لیا جا سکتا ہے۔
برآمدی شعبہ
برآمدات کے بارے میں حکومت پاکستان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ نہ صرف ان کی مقدار میں اضافہ ہو تجارتی معاہدے مکان کا مار ہی پہلے بہتر ہو۔ برما کی حوصلا فرائ کے لئے حکم نے جوانی میں بات میں درج زیل ہیں۔
ایکسپورٹ بونس اسکیم
یہ اسکیم1959 ء سے 1972 ء تک نافذ رہی۔ اس اسکیم کے تحت برآمدات سے کمائے ہوئے زر مبادلہ کا کچھ حصہ برآمد کنندگان کو انعام کے طور پر دے دیا جاتا تھا جو درآمدات کیلئے استعمال ہو سکتا تھا۔
ایکسپورٹ پروموشن بیورو
یہ ادارہ 1963ء میں قائم کیا گیا اس ادارے کا حصہ برآمدات کا معیار بہتر کرنا ہر آمدی اشیاء تیار کرنے والی صنعتوں کے قیام کی سفارش کرنا اور تجارتی وفدوں کے تبادلے وغیرہ ہے یہ ادارہ جانفشانی سے اپنا کام کر رہا ہے۔ i ایکسپورٹ مارکیٹ
ایکسپورٹ مارکیٹ ڈیویلپمنٹ
پاکستانی تاجروں کو بیرونی منڈیوں میں پاکستانی اشیا کی مانگ اور کھپت سے آگاہ کرنے کے لئے حکومت نے یہ فنڈ اپنے پیسے سے قائم کیا ہے۔ اس فنڈ کے قیام سے نئی اشیاء برآمد کرنے میں بڑی مددلی ہے۔
ایکسپورٹ کریڈٹ گارنٹی سکیم
برآمد کنندگان کو تجارتی اور سیاسی خطرات کے نتیجے میں رونما ہونے والے نقصانات سے بچانے کے لئے حکومت نے پاکستان انشورنس کارپوریشن قائم کی ہے جو ان خطرات کی ذمہ داری اٹھاتی ہے جو عام بیمہ کمپنیاں قبول نہیں کرتیں۔
آرسی ڈی
ایران اور ترکی کے ساتھ مل کر پاکستان نے 1964ء میں علاقائی تعاون برائے ترقی کا ایک معاہدہ کیا جس کے تحت دونوں ممالک سے پاکستان کی بیرونی تجارت میں کچھ اضافہ ہوا۔
ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان
پاکستان پانچ کروڑ روپے کے سرمایہ سے حکومت نے یہ ادارہ 1967ء میں قائم کیا۔ کے ادارہ کا مقصد تجارتی معاہدوں کو عملی شکل دینا ہے۔ یہ ادارہ ان لوگوں کے لئے ایکسپورٹ ہاؤس کا کام کرتا ہے جو خود اتنی اشیاء برآمد نہیں کر سکتے ۔ یہ ادارہ اس وقت کافی زیادہ اشیاء کی درآمد و بر آمد کا کام کرتا ہے۔
درآمدی شعبہ
درآمدات کے بارے میں حکومت پاکستان کی پالیسی کے اہم نکات درج ذیل ہیں۔ درآمدی اشیا کی تعداد کم سے کم کی جائے تا کہ زرمبادلہ بچایا جا سکے۔ درآمدی اشیا پر ٹیکس زیادہ سے زیادہ لگائے جائیں تا کہ ان کے استعمال کی حوصلہ شکنی کی جا سکے۔ درآمدات کے متبادلات ملک کے اندر تیار کئے جائیں تا کہ ملک خود کفیل ہو سکے۔ درآمدات کی کھلی اجازت کی جگہ درآمدی لائسنسوں کا نظام رائج رکھا جائے۔ غیر ضروری اشیاء اور منشیات کی درآمد منوع ہے۔ صنعتی ترقی کے لئے ضروری خام مال درآمد ہوتا ہے۔ درآمدی اشیا زیادہ سے زیادہ اپنے جہازوں سے ملک میں لائی جائیں اوران کا بیمہ بھی قومی بیمہ کمیٹیوں سے ہو۔
تجارتی معاہدے
حکومت پاکستان نے مشرقی اور مغربی سبھی ممالک سے مختلف اوقات میں تجارتی معاہدے کئے ہیں تا کہ ہماری اشیا کو ان ممالک میں محفوظ منڈیاں دستیاب ہو جائیں اور دوسری طرف ان ممالک سے ہمیں درآمدات لگا تار جاری رہیں ۔ دو طرفہ معاہدوں کے علاوہ پاکستان کی کثیر الملکی تنظیموں کا بھی رکن رہا ہے۔ ان تنظیموں میں آرہی ، ڈی جی اے ٹی ٹی اور دولت مشترکہ وغیرہ شامل ہیں۔ ان تنظیموں میں شرکت سے اراکین ممالک ایک دوسرے سے ترجیحی بنیادوں پر اشیاء کا تبادلہ کرتے ہیں اور باہمی تجارت پر کم شرح سے درآمدی و بر آمدی محصولات نافذ کرتے ہیں ۔ ان تنظیموں میں شرکت سے پاکستان کی تجارت کو توسیع ملی ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "درآمدی پالیسی" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ