زرعی ترقیاتی بنک آف پاکستان ⇐ بنک کا قیام 1961 ء میں عمل میں آیا۔ اس کا مقصد زرعی شعبے میں کاشتکاروں کو قرضے فراہم کرنا تھا۔ اس علاوہ گاؤں کی سطح پر گھر یلو صنعتیں لگانے کیلئے بھی قرضے فراہم کرنا اس بنک کا بنیادی مقصد تھا۔
طریقہ کار
بنک کا شتکاروں کو ان کی بہتر فصل کیلئے قرضے فراہم کرتا ہے۔ یہ قرضے آسان قسطوں میں واپس لئے جاتے ہیں اور کسان کو اس کی زمین کے مطابق قرضہ ملتا ہے عموما زمین گروی رکھی جاتی ہے یا فصل کے مطابق قرضہ کی شرائط طے کی جاتی ہیں۔
پروگرام کے نتائج
پاکستان اکنامکس سروے کے مطابق 81-1980 ء تک بنک نے 1066.62 ملین روپے کے قرضے فراہم کئے۔ ان قرضوں کی رقم میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے ۔ 82-1981ء میں یہ قرضے 1557.38 ملین تک پہنچ گئے ۔
کاشتکاروں
ان قرضوں کا 45 فیصد سے بھی زیادہ حصہ زرعی مشینری خریدنے کے کام آیا مگر بنک کی ان سہولتوں کے زیادہ تر فائدے بڑے کا شتکاروں کو حاصل ہوئے چھوٹے کاشتکاروں کو کل رقم کا بمشکل 21 فیصد دیا گیا تاہم اس قرضے کی بدولت بہت سے لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور زراعت میں ترقی کا سبب بنا۔
مربوط دیہی ترقیاتی پروگرام
اس پروگرام کا آغاز جون 1972 ء میں ہوا۔
اس پروگرام کے بنیادی مقاصد یہ تھے
کاشتکاروں کی معاشی و معاشرتی حالات کو سدھارا جائے
کوشش کی جائے کسان کی پیداواری صلاحیتیں بڑھ سکیں۔
اس مقصد کیلئے کاشتکار کی بنیادی ضروریات
بیج کھاد ادویات وغیرہ کی خریداری کیلئے ان کو قرضہ فراہم کیا جائے۔
مشینری
ان کے علاوہ چھوٹے کاشتکاروں ( جو جدید مشینری خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے ان ) کو مشینری کرایہ پر دی جائے۔ ان کی فصلوں کو محفوظ رکھنے اور ان کو مناسب داموں بیچنے کا بندو بست کیا جائے اور ایسے مثالی فارم بنائے جائیں
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال
جن پر جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے پیداوار کو بڑھا یا جائے تا کہ اس کو دیکھ کر دوسرے کا شتکاروں کو نئی ٹیکنالوجی اپنانے کا حوصلہ ملے۔
بنیادی صنعتوں کو قائم
اس کے علاوہ دیہات میں ایسی بنیادی صنعتوں کو قائم کرنا تھا جس کیلئے انہیں خام مال وہیں سے دستیاب ہو سکے اور لوگوں کو فنی مہارت دینا بھی اس پروگرام کے مقاصد میں شامل تھا۔
پروگرام کا طریقہ کار
ان مقاصد کو حاصل کرنے کیلئے سب سے پہلے ان کی درجہ بندی کی گئ جو مقاصد فوری حاصل کئے جاسکتے تھے۔ ان کو الگ کیا گیا اور وہ مقاصد جن کیلئے لمبا عرصہ درکار تھا ان کو الگ کیا گیا تاکہ علیحدہ علیحدہ دونوں پر کام ہو سکے
پروگرام کی افادیت
لوگوں کو اس پروگرام کی افادیت کا بھی پتہ چلتا ہے۔ جہاں تک اس کیلئے تنظیمی ڈھانچوں کا تعلق ہے تو اس کیلئے دو سطحی نظام تجویز ہوا۔
- گاؤں کی سطح
- مرکز کی سطح
گاؤں کی سطح پر کاشتکاروں کی ضروریات کا اندازہ لگایا گیا اور پھر ان کی ضروریات کے مطابق مختلف کارندے اس کام پر متعین کئے گئے پھر ان مختلف کاموں یا شعبوں سے تعلق رکھنے والے کارندوں کیلئے ایک مرکز بنایا گیا۔
تنظیمیں
اس مرکز میں تمام معاشرتی، معاشی اور تجارتی سرگرمیوں کو عمل میں لانے کیلئے منصوبہ بندی کی جاتی۔ مرکز کی سطح پر مزید چار تنظیمیں قائم کی گئیں
- پروجیکٹ منیجر
- گاؤں کی سطح پر تشکیل دی گئی انجمن امداد باہمی اور کا شتکاروں کی مرکزی امداد باہمی کی انجمن
- نجی سرمایہ کاری کے ادارے
- لوکل باڈیز ۔
پرا جیکٹس
مربوط دیہی ترقیاتی پروگرام کے تحت 74-1973ء کے انتقام تک تقریبا 115 پرا جیکٹس کھل چکے تھے جن میں 38 پنجاب میں 30 سندھ میں 30 شمال مغربی سرحدی صوبے میں 13 بلوچستان میں اور4 آزاد کشمیر میں کھولے گئے۔
زرعی سہولتیں
یہ پروگرام بھی اپنے تمام تر مقاصد کو پورانہ کر سکا تاہم جن جگہوں پر کاشتکاروں کو زرعی سہولتیں پہنچائی گئیں وہاں پیداوار میں کافی اضافہ ہوا لیکن مجموعی طور پر اس پروگرام سے بھی زیادہ تر افراد کوفائدہ نہیں پہنچ سکا۔
دیہی ترقی کا پروگرام
دیہی ترقی سے مراد صرف زراعت کے میدان میں اچھی پیداواری نہیں بلکہ اس میں آبادی کی بڑھتی ہوئی رفتار کو کم کرتا نوکری کے بہتر مواقع فراہم کرنا علاج معالجہ کی بہتر سہولتیں بہم پہنچانا، تعلیم کیلئے مراکز تعمیر کرنا صفائی کا انتظام کرنا پینے کیلئے صاف پانی مہیا کرنا سڑکیں تعمیر کرنا مارکیٹیں بنانا اور دیہات میں بجلی فراہم کرنا بھی ہے اور اس کے ساتھ کسی حد تک امیری غریبی کے فرق کو کم کرنا ہے۔ لہذا دیہی ترقی کے پروگرام کا مقصد زرعی پیداوار بڑھانا طبعی ڈھانچے کو بہتر بنانا زندگی کی بنیادی ضروریات بہم پہنچانا
روز گار
لوگوں کوروز گار مہیا کر کے اچھی زندگی کے مواقع فراہم کرنا ہے۔ اس مقصد کیلئے حکومت نے مختلف حکمت عملیاں اختیار کیں جنہوں نے کسی حد تک اپنے مقاصد کو پورا بھی کیا مگر اس سے زیادہ تر لوگوں کو فائدہ نہیں پہنچ سکا۔ پانچویں پانچ سالہ منصوبے میں حکومت نے فیصلہ کیا کہ مربوط دیہی ترقیاتی پروگرام اور پیپلز ورکس پروگرام کو یکجا کیا جائے اور اس کو دیہی ترقی کا نام دیا ہے۔ پانچویں پانچ سالہ منصوبے میں اس کے جو مقاصد واضح کئے گئے وہ یہ ہیں۔
- قومی سطح پر معاشی و معاشرتی ترقی کے ساتھ دیہی ترقی کو مربوط کرنا
- بیروزگاری کو کم کرنا
- زراعت اور دوسری دیہی سرگرمیوں کے پروگراموں کو بڑھانا اور زیادہ لوگوں کواس میں شامل کرنا
- دیہات کے طبعی ڈھانچے کو بہتر بنانا
طریقہ کار
فیڈرل گورنمنٹ نے خاص خاص پروگرام مرتب کئے ہیں جس میں بنیادی تعلیم بنیادی علاج معالجے کی سہولتیں دیہات میں بجلی پہنچانا اور سڑکیں تعمیر کروانا شامل ہے۔
فیڈرل گورنمنٹ
اس کا مقصد یہ ہے کہ دیہات میں لوگوں کو بنیادی سہولتیں بھی حاصل ہوں۔ فیڈرل گورنمنٹ جو پروگرام مرتب کرتی ہے
ممبران کو تربیت
ان پر عمل درآمد کروانے کیلئے زیادہ تر لوکل کونسل کے ممبران کو تربیت دی جاتی ہے
زرعی حالت
جو تربیت حاصل کرنے کے بعد دیہی علاقوں کی زرعی حالت اور طبعی ڈھانچے کو بہتر بنانے کیلئے کوششیں کرتے ہیں۔
پروگرام کے نتائج
اس پروگرام کے تحت کئی منصوبے اب تک پایہ تکمیل تک پہنچ چکے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پرائمری سکولوں کی تعداد میں پانچ گنا اضافہ ہو چکا ہے۔ اسی طرح بچوں کو ٹیکے لگانے کی سکیموں میں بھی پانچ گنا اضافہ ہو گیا ہے۔ دیہات کو بجلی فراہم کرنے کے پروگرام کے تحت پہلے سے دوگنا دیہات بجلی کی سہولت سے فیض یاب ہو چکے ہیں۔ اسی طرح ایک اندازے کے مطابق اس پروگرام کے تحت فارموں سے مارکیٹ تک جو سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں ان کی لمبائی 3200 کلومیٹر سے زیادہ ہے۔
زرعی اصطلاحات
نظام اراضی کو بہتر بنانے کیلئے مختلف وقتوں میں کام ہوتا رہا ہے اور کسی حد تک ان کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے 1949ء میں مسلم لیگ نے اپنی سفارشات پیش کیں جس کے تحت یہ طے ہوا کہ بڑی جاگیرداریاں ختم کر کے زمین مزارعین میں بانٹ دی جائے اور کسی کے پاس 1150ایکڑ نہری اور 1450ایکڑ بارانی سے زیادہ زمین نہ ہو۔
معاوضہ
زمیندار کو 15 لاکھ سے زیادہ معاوضہ نہ دیا جائے لیکن اس پر بہت سی وجوہ کی بنا پر عمل درآمد نہ ہو سکا۔ اس کے بعد کے عرصے کے دوران حکومت نے مختلف قسم کے قوانین پاس کئے ۔
قوانین کا بڑا مقصد
ان قوانین کا بڑا مقصد کا شتکاروں کو بے دخلیوں کیخلاف تحفظ فراہم کرنا اور دیگر مراعات دلوانا تھا لیکن زمینداروں کی چالا کی اور کاشتکاروں کی سادہ لوحی کی وجہ سے ان پر عمل نہ ہو سکا۔
تجویز
اس کے بعد 1957ء میں بھی منصوبہ بندی بورڈ نے زرعی اصطلاحات تجویز کیں جن پر بھی عمل نہ ہو سکا۔ 1958ء میں جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھالتے ہی اصطلاحات نے اراضی کیلئے ایک کمیشن قائم کیا۔ اس کے تحت زیادہ سے زیادہ ملکیت کی حد 1500 ایکڑ شہری اور 1080 قائم حد ایکڑ بارانی زمین مقرر کی گئی ۔
ملکیت
دوسری بار زرعی اصطلاحات 1972ء میں نافذ کی گئیں۔ اس کے تحت زمین کی حد ملکیت کم کر کے 150 ایکٹر نہری اور 1300 ایکڑ بارانی مقرر کر دی گئی ۔ فالتو زمین ضبط کر لی گئی اور یہ حد کرکے زمین اس پر کام کرنے والے کا شتکاروں میں مفت بانٹ دی گئی ۔ اس طرح کاشتکار جو پہلے صرف زمین اس پر کام مزارعین تھے
حکمت عملیاں
اب مالک بن گئے اور اپنی زمین کو بہتر طریقے سے لگن کے ساتھ کاشت کرنے لگے جس سے فی ایکڑ پیداوار بڑھی۔ یہ وہ حکمت عملیاں تھیں جن پر وقتا فوقتا حکومت عمل کرتی رہی ہے تا کہ دیہات کی حالت بہتر بنائی جاسکے۔ یہ کوششیں ابھی تک جاری ہیں۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “زرعی ترقیاتی بنک آف پاکستان“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
……..زرعی ترقیاتی بنک آف پاکستان.…….