سری لنکا میں انسانی حقوق کی صورتحال ⇐ سری لنکا میں سینکڑوں تامل لوگ جن میں ضمیر کے قیدن کے قیدی ضمیر شامل ہیں جیلوں میں اکثر و بیشتر لسانی بنیاد پر سزا اور عقوبت سے دو چار ہوتے رہتے ہیں۔
قیدیوں کے ساتھ انسانی برتاؤ
قیدیوں کے ساتھ غیر انسانی برتاؤ اور نارو اتشد بھی ہوتا ہے۔ ہندوستانی قیدیوں کی طرح یہاں بھی ہر سال پندرہ بیس قیدیوں کا نا گہانی طور پر غالب ہو جانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ بد نصیب ماورائے عدالت قتل کا شکار ہو چکے ہیں ۔
آزادی کی تنظیم
حکومت کیخلاف تامل ٹائیگرز آزادی کی تنظیم بھی انسانی حقوق کی متعدد خلاف ورزیوں میں ملوث پائی گئی تامل ایلم کے ٹائیگرز(ایل ٹی ٹی ای ) ہے جن میں قیدیوں کے ساتھ برا سلوک اور ان کا ظالمانہ قتل بھی شامل ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی کوششیں
انسانی حقوق کو تحفظ دینے اور ان کی خلاف ورزیوں کا تدارک کرنے کیلئے ایمنسٹی انٹرنیشنل کا ادارہ وقتاً فوقتاً اپنی سفارشات پیش کرتا رہتا ہے لیکن سری لنکا کی حکومت ان کا خاطر خواہ نوٹس نہیں لیتی ۔
پرغمال
اس لیے تامل ٹائیگرز تنظیم (ایل ٹی ٹی ای) سے بھی اپیل کی تھی کہ وہ نہتے اور بے گناہ شہریوں کو خوامخواہ قتل کرنے کا سلسلہ ترک کر دے اور ان لوگوں کو رہا کر دے جن کو اس نے عرصہ دراز سے پرغمال بنا رکھا ہے لیکن اس سرکش عظیم پر اس کا کچھ اثر نہیں ہوا۔
بنگلہ دیش
بنگلہ دیش کے آئین میں تمام شہریوں کیلئے بنیادی حقوق کی ضمانت موجود ہے ۔ قانون کی نظر میں سب شہریوں کو یکساں تصور کیا گیا ہے۔
مذہب کی بنیاد
شہریوں کی بلا جواز نظر بندی، نسل، عمر جنس ذات یا مذہب کی بنیاد پر امتیاز اور جبری مشقت کی ممانعت ہے۔ قانون امن عامہ اور اخلاقیات کی حدود میں رہتے ہوئے ہر شہری کو سفر کرنے کسی جگہ اکٹھا ہونے اور اپنے مفادات کیلئے کوئی انجمن ایسوسی ایشن بنانے کی پوری آزادی ہے اور ضمیر تحریر وتقریر پریس مذہب اور عبادت کی بلا امتیاز ضمانت فراہم کی گئی ہے۔
بنگلہ دیش میں انسانی حقوق کی صورتحال
ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹوں کے مطابق اخبار رائے کا حق استعمال کرنے پر درجنوں ضمیر کے قیدی خصوصی اختیارات کے قانون (خصوصی اختیارات کا ایکٹ) کے تحت تشدد کے مختلف مراحل اور قید و ہند کی جان لیوا صعوبتوں سے گزرتے ہیں۔
اپوزیشن کے لیڈروں
پولیس سٹیشنوں اور جیلوں میں بے پناہ تشدد کے ہاتھوں جیسوں افراد موت کی نیند سو جاتے ہیں۔ سڑکوں پر جونہں اپوزیشن اپنی طاقت منوانے کیلئے وارد ہوتی ہے تو پولیس اپنے لاٹھی چارج اور پکڑ دھکڑ سے تشدد کا ایک نیا باب رقم کرتی ہے۔ حکومت کے اشارے پر اپوزیشن کے لیڈروں اور سیاسی کارکنوں کیخلاف الٹے سیدھے مقدمات درج ہو جاتے ہیں۔
مشکلات کا سامنا
دیگر ترقی پذیر ممالک کی روش پر چلتے ہوئے بنگلہ دیشی حکومت اپنے نا پسندیدہ افراد کا ماورائے عدالت قتل کرنے سے نہیں ہچکچاتی ۔ چنانچہ 1995 ء میں 45-40 نہتے شہریوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا ۔ علاوہ ازیں اقوال اور تشدد کے واقعات اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں اور شہریوں کو انصاف کے حصول کیلئے بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
نیپال
نیپال کی آبادی دو کروڑ سے زائد ہے ۔ 90 فیصد ہندوؤں کی اکثریت ہے ۔ 9 نومبر 1990 کو نیا آئین نافذ کیا گیا جس میں بادشاہ کے اختیارات کو محدود کرنے کے علاوہ بنیادی حقوق کی ضمانت فراہم کی گئی ہے۔ آئین کی رو سے تمام شہری برابر ہیں۔ مذہب، نسل، جنس ذات ، قبیلہ یا نظریہ کی بنیاد پر کسی نوعیت کا امتیاز رکھنے کی گنجائش نہیں ہے۔
کالعدم
قانونی تقاضے پورے کئے بغیر کوئی شہری اپنی آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا ۔ پھانسی کی سزا بچوں کی شادی کثرت ازدواج (تعدد ازدواج) اور ذات پات کی لعنت کو سرکاری طور پر کا لعدم قرار دیا جا چکا ہے۔ پر امن طور پر اکٹھے مل بیٹھنے ٹریڈ یونین اور ایسوسی ایشن بنانے ملک میں ہر جگہ گھومنے پھرنے اور سفر کرنے پریس اور اظہار رائے کی مکمل آزادی ہے۔
رسم الخط ثقافت
قانونی مراحل سے گزرے بغیر کسی کو سزا دینے ایک ہی جرم میں دوبارہ سزا دینے اور بلاوجہ کسی کو حراست میں لینے کی ممانعت ہے اور کسی بھی شہری کو اپنی جائیداد بنانے اپنی زبان رسم الخط ثقافت اور مذہب کو اپنانے اور فروغ دینے کا پورا حق حاصل ہے۔
نیپال میں انسانی حقوق کی صورتحال
انیس سو پینسٹھ ء میں ملک گیر ہڑتالوں اور مظاہروں کے دوران کم از کم 700 شہریوں کو مخصوص عرصہ کیلئے نظر بند کر دیا گیا ۔ منہ زور پولیس کی تحویل میں آنے والے کو تشدد اور بدسلوکی کا سامنا کرنا پڑا۔
انسانی حقوق
انسانی حقوق کے حوالے سے ترقی پذیر ملکوں کی یہ مشترکہ روایت ہے کہ حکومت کی زیادتی اور دیدہ دلیری کے علاوہ اپوزیشن بھی صبر و ضبط کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتی ہے۔
ترقی پذیر ملک متحمل
بھرے ہوئے مظاہرین گاڑیوں کی توڑ پھوڑ اور عمارتوں کا گھیراؤ کر کے اپنا غصہ تو اتار لیتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سوچتے کہ یہ سراسر پبلک پراپرٹی کا نقصان ہے جس کا کوئی غریب یا ترقی پذیر ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔
بھوٹان
بھوٹان ایک چھوٹا سا ملک ہے جو تین سو سال تک تبت کے فرمانرواؤں کی راجدھانی میں شامل رہا۔ پھر 1910ء میں انگریزوں کے قبضہ میں آگیا ۔ 1949ء میں انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوا ۔ ملک کی کل آبادی ستر\لاکھ ہے ۔ 75 فیصد بدھ مت کے پیروکار ہیں اور 25 فیصد ہندو آباد ہیں ۔ ملک میں بادشاہت کا نظام ہے۔
بھوٹان میں انسانی حقوق کی صورتحال
انٹرنیشنل ایمنسٹی کی رپورٹ کے مطابق جیلوں کی حالت پہلے کی نسبت بہتر ہوگئی ہے۔ البتہ ضمیر کے قیدی اب بھی جیل کی ہوا کھاتے ہیں۔ اس بار پچاس سے زائد ضمیر کے قیدی بے قصور عدالتی سماعت (آزمائش) کے بغیر حوالات کی چار دیواری میں سختیاں جھیلتے رہے ۔
گھروں کو مسمار
ایک ہزار سے زائد نیپالی بولنے والے جنوبی بھوٹان کے لوگوں کو ملک بدر کر دیا گیا اور ان کے گھروں کو مسمار کر دیا گیا۔ نیپال اور بھوٹان کے مابین سب سے بڑا مسئلہ جنوبی بھوٹان سے آئے ہوئے 85000 نیپالی زبان بولنے والے لوگ ہیں جو مہاجرین کی حیثیت سے مشرقی نیپال کے کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔ یہ رضا کار دیہاتی گنوار لوگ ہیں جو اکثر ڈاکہ زنی اغوا اور قتل کی وارداتیں کرتے اور اودھم مچاتے رہتے ہیں۔
دستی جلا وطنی کے واقعات
بہر حال نیپالی زبان بولنے والے لوگوں کی اکثر و بیشتر شامت آئی رہتی ہے جنہیں بھی بے قصور قید کر لیا جاتا ہے اور بھی ان پر بغاوت ی قوم دشمنی کا الزام تھوپ کر دس سال سے عمر قید تک کی سزا دے دی جاتی ہے۔ بھوٹان میں زبر دستی جلا وطنی کے واقعات رونما ہوتے ہیں جن پر ایمنسٹی انٹر نیشنل کا ادارہ اپنی تشویش کا اظہار کرتا رہتا ہے۔
مالدیپ
مالدیپ 26 جولائی 1965ء کو انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوا۔ سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ آبادی تقریبا سوا دولاکھ ہے ۔ فی کس خام قومی پیداوار 700 ڈالر ہے اور شرح خواندگی 93 فیصد ہے ۔
مساجد کا انتظام
ایک خاص بات یہ ہے کہ خواتین کیلئے باقاعدہ 300 کے لگ بھگ الگ مساجد کا انتظام ہے ۔ ایک مدت تک یہاں سلطانوں کی فرمانروائی رہی ۔ 1968 ء میں مالدیپ کو جمہوریت نصیب ہوئی ۔ آئین میں ضمیر تقریر تحریر جان و مال سفر حضر حلال کمائی کیلئے کوششاور عبادت کی ہر طرح کی آزادی دی گئی ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “سری لنکا میں انسانی حقوق کی صورتحال“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
MUASHYAAAT.COM 👈🏻 مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
……… سری لنکا میں انسانی حقوق کی صورتحال ………