سیاسی عوامل

سیاسی عوامل معاشی ترقی کے لئے سیاسی عوام کی اہمیت سے انکار محال ہے۔ سیاسی عوامل کی اہمیت ترقی پذیر ممالک میں اور بھی بڑھ جاتی ہے کہو کہ تین پر مالک کونی کی ناکامیان سرمایہ کی لت سرمایہ کار کی ناسازگار فناوری مہارتوں کی کی شدید مسائل کا سامنا ہے۔ ایسے حالات میں حکومت اور سیاسی عوامل کی طرف سے اقدامات اور بھی ناگزیر ہو جاتے ہیں۔

سیاسی عوامل

سیاسی     عوامل کی   اقسام 

 سیاسی عوامل کی قسم کے ہوتے ہیں

ترقی کی دلدادہ حکومت

معاشی ترقی کیلے ضروری ہے کہ جوحکومت برسراقتدار ہو وہ معاشی ترقی کی طرف جھکاؤ رکھتی ہو۔ قتصادی تری کے لیے وہ بیوی اہم مقام بھی ہے۔ قتصادی صوبہ بندی سرکاری تیاری کی جاتی ہے تری کی دلدا و ویت معاشی ترقی کے لئے اقتصادی منصوبہ بندی کے عملی نفاذ کے لئے منصوبہ بندی کیشن کا قیام عمل میں لاتی ہے۔ آج کل کے دور میں تو ویسے بھی کوئی حکومت معاشی ترقی سے کنارہ کشی کی متحمل نہیں ہوسکتی ۔ دیگر حکومتوں کی طرح پاکستان کی ہر حکومت 1947ء سے ہی معاشی ترقی کی واضح طرف دار رہی ہے۔ ہر حکومت ترقیاتی منصوبے تیار کرتی ہے۔ ان کے عملی نفاذ کا بندو بست کرتی ہے، پروگراموں کا دانا نو کا جائزہ لیتی ہے۔ ان افعال کے ذریعے معاشی ترقی کے لئے سازگار ماحول بنانے میں مددملتی ہے۔

جمہوری حکومت

معاشی ترقی کے لئے یہ صرف ترقی کی دلدادہ حکوم کی موجودگی ضروری ہے بلکہ اس کا جمہوری ہونا بھی ان ہیں لازمی ہے۔ جمہوری طرز کنے والی حکومتوں کی زیرگرانی ترقی زیادہ تیز ہوتی ہے۔ جن معاشروں میں آمریت یا بادشاہت کا دور دورہ ہوتا ہے، وہاں معاشی ترقی کے تیز ترعمل کی ضمانت دینا کافی مشکل ہے۔ جمہوری معاشروں میں برسراقتدار حکومتوں کو معاشی ترقی کے حصول کے لئے بہت کام انجام دینا پڑتا ہے۔ اگر ترقیاتی پروگراموں کو عملی جامہ نہ پہنایا جائے تو جمہوری حکومتوں کو آئندہ انتخابات میں شکست کا احتمال ہوتا ہے ۔ شکست سے بچنے کے لئے ہر حکومت اپنی مقدور بھر کوشش کرتی ہے کہ ترقی کا عمل رواں دواں رہے بادشاہت یا آمریت میں حکمران انتخابات کے جھنجھٹ سے آزاد ہونے کے باعث معاشی ترقی کے لئے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کو اپنی ذمہ داری نہیں مجھے۔ انتخابات میں شکست و غیرہ کا غلہ شرنہ ہونے کے باعث سخت گیر آمر معاشی ترقی کے پروگرام بنانے اور انہیں نافذ کرنے کے معاملات سے دوچی کا اظہار نہیں کرتے ۔ جمہوریت معاشی ترقی کی رفار کو بڑھانے کا کام کرتی ہے۔ جمہوری ملکوں میں ہر سیاسی پارٹی انتخاب کے وقت اپنے ووٹروں کے سامنے کوئی نہ کوئی مشور پیش کرتی ہے اورپھر بر سراقتدارآ کر اپنے وعدوں کی تحمیل کی کوشش کرتی ہے تا کہ اگلے انتخاب میں ان کا بر سر اقتدار آنا تینی ہو جائے ۔ اکثر ممالک میں سیاسی جماعتیں تقسیم دولت کو میں آ یہ حد دولت منصفانہ بنانے کا وعدہ کرتی ہیں۔ حکومت میں آکر یہ جماعتیں کسی نہ کسی حد تک دولت کی تقسیم کو بہتربنانے کی حتی الوسع کوشش بھی کرتی ہیں۔ جس حد تک تقسیم منصفانہ ہو جائےاتنی ہی معاشی ترقی کے لئے سرمایہ سازی مکن ہو جاتی ہے۔

مضبوط حزب اختلاف

معاشی ترقی کیلئے جمہوری حکومتوں کی موجودگی کے علاوہ مضبوط حزب اختلاف کا قیام بھی اہم شرط ہے۔ کوئی کومت اوار ای بی ام دار کیوں نہ ہو اس کی نہ کی تم کی کہا یا اس کی عام قصی کا جرم سرزد ہو تا ہے۔ ان کا ہوں اور کا غلطیوں کی نشاندی کا کام حزب اختلف کو انجام دینا چاہیے۔ حزب اخلاف کی غیر موجودی یا کمزوری کی صورت میں برسر اقتدار حکومت نشره اقتدار میں بدمست ہو سکتی ہے جس کے باعث قومی وسائل ملکی مفاد کی بجائے ذاتی اغراض پر خرچ ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔

مستعد انتظامیہ

ایک با صلاحیت حکومت کی انتظامیہ بھی مستعد ہوتی ہے۔ مستعد انتظامیہ معاشی ترقی کے پروگراموں کو چار چاند لگا سکتی ہے ۔ منصوبوں کی تشکیل ، نفاذ اور عملی نتائج کے مرتب کرنے میں حکومتوں کو انتظامیہ پر ہی بھروسہ کرنا پڑتا ، ہے۔ با صلاحیت انتظامیہ معاشی ترقی کے یہ سب کام بحسن و خوبی انجام دیتی ہے۔ اس کے برعکس اگر انتظامیہ راشی ہو جائے ، کے یہ کام وخوبی انجام دیتی ہے۔ اس کے اگر نظامی ہو جائے ۔ پروگراموں میں دلچسپی نہ دکھائے، سرخ فیتے کا استعمال زیادہ کرے تو ظاہر ہے اسی انتظامیہ معاشی ترقی میں سد راہ بن جائے گی ترقی پذیر ممالک کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ان کو بھی بھی با صلاحیت ، ترقی کی دلدادہ حکومتیں نصیب بھی ہو جاتی ہیں مگرست نا اہل اور کام چور انتظامیہ کے ہاتھوں عوام کی طرف سے ان کو ہمیشہ بدنامی اور رسوائی کا داغ بھی ملا۔

امن وامان

معاشی ترقی کے سیاسی عوامل کا ایک تقاضا یہ بھی ہے کہ ملک کے طول و عرض میں امن وامان قائم ہو۔ پر امن فضا میں معاشی جدوجہد زیادہ تیزی سے پروان چڑھتی ہے۔ اگر ہر طرف بدامنی ہو ، لوٹ مار کا بازار گرم ہو ، جلاؤ اور گھیراؤ کی مہم زوروں پر ہو، ہڑتالیں اور تالہ بندیاں عام ہوں ، غبن ، رشوت اور اقربا پروری عام ہو اور طبقاتی خانہ جنگی عروج پر ہو تو ظاہر ہے کہ معاشی ترقی کے پروگرام شرمندہ تعبیر نہ ہوسکیں گے۔ سرمایہ کاری کی سرگرمیاں پر یقین ماحول کا تقاضا کرتی ہیں۔ ذراسی بے یقینی سرمایہ کاروں کو ہاتھ کھینچ لینے پر مائل کر دیتی ہے۔

انتظامی عوامل

اچھی انتظامیہ وہی کہلاتی ہے جو عوام  او حکمت کےدرمان دیانتدارای کار را انجام دے اسے یہ معلوم ہو کہ بریر حکومت رکھتی اقدار کو ترقیاتی میان میں کیا یا عزائم کی ہے اورعوام کی اسارے میں کیا کی امیدیں ہیں۔ دونوں سموں کا خوبصورت نظم بنانا ا جاتا ہے۔

اعلی صلاحیت کار

حکومت کی انتظامیہ ان افراد پرمشتمل ہونی چاہے جو بہت زیادہ تعلیم یافتہ تربیت یافتہ اور ذ ہیں لوگ ا ہوا ہے جہاں کو یخ زمان اور اس جانی پڑتال کے مرحلوں سے گزرے تا کہ جو کوئی بھی حکومت کی انتظامیہ کا رکن بنے۔ وہ بھٹی سے کندن بن کر نکلے ۔ افسران کے چناؤ میں علاقائی تناسب کی تخصیص ، سفارش اور اقربا پروری جیس نامسعود امور انتظامیہ کونا اہل اور کام چور بنانے کا فریضہ انجام راقرباپروری تاہی دیتے ہیں۔ نا اہل انتظامیہ، حکومت اور عوام کے درمیان گہرے روابط کا کام انجام نہیں دے سکتی۔۔

مناسب شرائط ملازمت

ملک کے زمین اور اعلی تعلیم یافت طبق کو حکمت کی انتظامیہ کارکن بنے کی ترتیب دینے کا آسان راستہ یہ اعلی تعلیمیافتہ طبقے حکومت کی ہے کہ حکومت انتظامیہ کے افسران کی شرائط ملازمت کو بہت دلکش بنائے۔ دلاویز شرائط کار ذ ہن اور باصلاحی افراد کو یقینا انتظامی کا ارزمین رکن بنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ یہ لو ذمہداری کا کام سنجان کر دلجمعی ک ساتھ معاشی ترقیاتی پروگراموں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں۔ اگر شرائط ملازمت یا تخواه با مراعات خاطر خواہ نہ ہوں و با صلاحیت نوجوان کسی اور شعبے میں دل لگاتے ہیں۔ اس وجہ سے ذہانت کے اعتبار سے دوسرے تیسرے درجے کے ذہین افرادی حکومت کی انتظامیہ کے رکن بننے کے قابل رہ جاتے ہیں۔ کم تر درجے کے ذہین افراد کی بدولت معاشی ترقی کا کام اس حسن و خوبی سے انجام نہیں پاتا جس کا یہ متقاضی ہوتا ہے۔

احساس احتساب

حکومت آنی جانی چیز ہے مگراس کی انتظامیہ مستقل ادارے کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس لئے اس مستقل ادارے کا نہ صرف احساس ذمہ داری سے سرشار ہونا ضروری ہے بلکہ ان کا احتساب بھی اسی قدر لازمی ہے۔ انتظامیہ کو بے لگام نہیں ہونا ہونا چاہیے۔ یہ با اختیار مستقل ادارہ تو ہے مگر اس کا حساب کتاب خود حکومت کو لینا چاہیے کہ اس نے کیا کام اچھا کیا ہے اور کیا برا۔ انتظامیہ سے وقا فو تا جواب طلبی ہوتی رہنی چاہیے تا کہ انتظامیہ حکومت کی آلہ کار رہے نہ کہ خود حاکم بن جائے ۔ انتظامیہ کو کھلے اختیار دینا کسی طور محسن اقدام نہیں ہے مگر جس حد تک ان کو با اختیار بنایا جائے ، اس کی ان سے جواب طلبی ضرور کی جائے ۔ مادر پدر آزاد ہو جانے سے انتظامیہ خود حکمران جماعت کا کردار سنبھال لیتی ہے۔ ایسی نوکر شاہی ملک اور معاشی ترقی دونوں کے مستقبل کے لئے مہنگی ثابت ہوتی ہے۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب میں ایک اہم سبب انتظامیہ کا خود حاکم وقت بن جانا بھی بتایا جاتا ہے۔

بداعمالیاں

انتظامیہ چونکہ ایک مستقل ادارہ ہے اس لئے اکثر ملکوں میں یہی ادارہ سب سے زیادہ با اختیار نظر آتا ہے۔ جہاں کہیں امور سلطنت پر حاکموں کی گرفت کمزور ہوتی ہے یا جمہوری حکومتوں کا تختہ الٹ دیا جاتا ہے تو یہ انتظامیہ ہی ہوتی ہے جو سیاسی خلا کو پُر کرنے کی کوشش کرتی ہے سیاست سے لگاؤ رکھنے والی انتظامیہ میں رشوت ، اقربا پروری، سفارش صوبائیت اور فیصلوں میں تاخیر یا نا انصافی معمول بن جاتا ہے ہر صورت میں ان بداعمالیوں کا ئم اثر معاشی ترقی کی رفتار پر پڑتا ہے۔ ان بد اعمالیوں کا تدارک بہت ضروری ہوتا ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "سیاسی عوامل"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment