قوت بخش غذائی اجزاء سے متعلق امراض ⇐ بعض حالات کے تحت بچوں میں لحمیات کی کمی ہو جاتی ہے اسی طرح بعض حالات میں بچوں میں قوت مہیا کرنے والے غذائی اجزاء کی کمی بھی ہو جاتی ہے۔ لحمیات کی کمی کی طرح یہ کمی بھی خوراک میں قوت بخش غذائی اجزاء مثلا چکنائی کاربو ہائیڈ رئیس وغیرہ کی غذا میں کمی کے باعث عمل میں آتی ہے۔ جب خوراک میں ان قوت بخش غذائی اجزاء کی لگا تار کی رہنے لگتے تو بچے کے اندر موجود چکنائی کاربوہائیڈ ریس اور لحمیات قوت مہیا کرنے کیلئے استعمال ہوتے ہیں۔ لہذا اس طرح مریض کے جسم میں پہلے چکنائی استعمال ہوتی ہے پھر کار بو ہائیڈ رئیس اور اگر اس دوران بھی مناسب خوراک نہ ملے تو پھر جسم میں موجود لحمیات طاقت مہیا کرنے کے کام آتے ہیں۔ اس سے مریض کے جسم میں ابتدا میں صرف قوت بخش اجزاء کی کمی ہوتی ہے لیکن جوں جوں مرض شدت اختیار کرتا جاتا ہے اس کے جسم میں لحمیات کی کمی بھی واقع ہو جاتی ہے۔ قوت بخش اجزاء کی کمی سے پیدا ہونے والے مرض کو سوکھے کا مرض کہتے ہیں۔
سوکھے کا مریض یا مراس
یہ مرض بہت چھوٹے بچوں یعنی ایک سال سے کم عمر بچوں میں زیادہ ہوتا ہے۔ مراسمک بچے زیادہ تر غریب اور تنگ گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان میں سوکھے پن کی بڑی وجہ ٹھوس غذا کی دیر سے ابتدا ہے۔ ایسی مائیں جو کسی ایک وجہ یا زیادہ: جوہات کی بناء پر اپنے بچے کو اوپری اور ٹھوس غذا کا استعمال 4 ماہ کے بعد بھی شروع نہیں کروا سکتی ہیں ان کے بچے اکثر اوقات قوت مہیا کرنے والے غذائی اجزاء سے محروم ہو جاتے ہیں۔
علامات
اس مرض کے ابتداء میں نشو و نمارک جاتی ہے اور بچے کے وزن میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔ وزن میں کمی بچے کے قد کاٹھ میں کمی سے زیادہ جلد پہنچانی جاسکتی ہے۔ آہستہ آہستہ جلد کے نیچے موجود چکنائی کی تبہ غائب ہونا شروع ہو جاتی ہے اور جوں ہی یہ تبہ غائب ہوتی ہے بچے کی جلد پر تھریاں پڑ جاتی ہیں اور بچے پر بوڑھے کا گمان ہونے لگتا ہے۔ کو اشید کور کی طرح مراسس کے مریض بچے کو بھی اسہال کی شکایت ہوتی ہے لیکن اس صورت میں شدید قسم کے اسہال کی وجہ سے ا ے جسم میں پانی کی کمی واقع ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جسم میں نمکیات کی کی ہوتی ہے جس کی وجہ سے نمکیات اور پانی میں توازن بھی برقرار نہیں رہ پاتا۔
احتیاطی تدابیر
پیدائش سے دو سال کی عمر تک تمام بچوں کو ماں کا دودھ پلانا ضروری ہے۔ چار ماہ ہی کی عمر میں بچوں کو متوازن ٹھوس غذا کا استعمال کروانا چاہیے۔ مراسمک بچے کو میٹھے پانی کی کافی مقدار پلوانا بھی ضروری ہے۔
قوت بخش غذائی اجزاء کی زیادتی سے پیدا ہونے والے امراض
: انسانی جسم میں زائد قوت بخش غذائی اجزاء مختلف صورتوں میں جمع ہوتے رہتے ہیں۔ مثلا زائد فالتو ساده شکری مرکبات جگر میں پہنچ کر گائیکو جن کی شکل میں سٹور ہو جاتے ہیں اور جب جسم کو یہ درکار ہوتے ہیں تو قوت اسے خوراک سے نہیں مل پاتی ۔ یہ گائیکو جن دوباره ساده یک شکری مرکبات میں تبدیل ہو کر خون میں شامل ہوتی ہے اور جسم کے تمام حصوں کو توانائی مہیا کرتی ہے۔ اگر خون میں یہ سادہ شکری مرکبات کی زیادتی ہو جائے تو اسے ذیا بیطیس کہا جاتا ہے جسے عام زبان میں شکر بھی کہتے ہیں اس طرح زائد چکنائی بھی مختلف شکلوں میں جسم میں سٹور ہو جاتی ہے۔ اسکی اچھی مثال چربی ہے۔ یہ جب ضرورت سے زیادہ سٹور ہو جائے تو موٹاپے کا مرض لاحق ہو جاتا ہے۔
موٹا پا اوپیسٹی
جسم میں چربی اور چکنائی کی زیادہ مقدار جمع ہو جانے سے موٹا پا وجود میں آتا ہے ۔ سب سے زیادہ قوت مہیا کرنے والا غذائی جزو ہوتا ہے۔ موٹاپے کے دوران انسان کو جسمانی معذوری ہونے کا اندیشہ بھی ہوتا ہے اور اسی طرح کی دوسری بیماریاں بھی لگنے کا امکان ہوتا ہے مثلاً خون کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔ دل کے امراض ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں کسی بھی وقت موت کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔ اگر چہ موٹاپے کو ابتدائی مراحل میں معلوم کرنا کچھ مشکل ہوتا ہے لیکن جو نبی انسان کا وزن اس کے قد اور عمر کی مناسبت سے اس کے معیاری وزن سے 30-20 زیادہ ہو جائے تو اس حالت کو موٹاپے کے مرض سے پہچانا جاتا ہے۔ اس مرض کی شدت کا دوسرا طریقہ جلد کی موٹائی ناپنا بھی ہے۔ یہ طریقہ زیادہ تر امریکی غذائیت کے ماہرین استعمال میں لاتے ہیں ۔ حقیقت میں جلد کی موٹائی بھی جلد کی نچلی سطح پرچھی ہوئی چربی کی تہ کی موٹائی کو ظاہر کرتی ہے۔
موٹاپے کے اسباب
کھانے میں موجود توانائی کی مقدار اگر روز مرہ استعمال میں آنے والی توانائی سے زیادہ ہو تو توانائی کی فالتو مقدار جسم میں چکنائی شکر یا چربی کی صورت میں جمع ہونا شروع ہو جاتی ہے۔ اگر یہ حالت کافی عرصے تک قائم رہے تو وزن میں اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور اگر اس دوران مناسب ورزش اور کام کے ذریعے جسم میں موجود فالتو تو انا کی یا حرارے استعمال نہ ہوں تو وزن مزید بڑھتا چلا جاتا ہے۔ موٹا پا ہمیشہ زیادہ کھانے کے نتیجے میں عمل میں آتا ہے۔ روزانہ استعمال ہونے والی خوراک اس مرض کے لاحق ہونے میں دوسرے عوامل سے زیادہ اثر انداز ہوتی ہے۔ جن عوامل کا زیادہ عمل دخل ہوتا ہے ان میں سگریٹ نوشی خامروں کی غیر متوازن کیفیت اور صورتحال ہیں۔ ماہرین کی رائے کے مطابق یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سگریٹ نوشی سے انسان کے عمل تحف میں کمی واقع ہوتی ہے اور آکسیجن کے استعمال میں بھی کمی آجاتی ہے جس کی وجہ سے بھوک زیادہ لگنا شروع ہو جاتی ہے اور وزن میں بھی اضافہ ہونا شروع ہو جاتا ہے اور سگریٹ نوشی والے نتیجہ موٹاپے کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ انسان کے جسم میں کچھ ایسے غدود موجود ہوتے ہیں جن کے کام میں کچھ خرابی کے باعث بھی موٹا پا وجود میں آتا ہے۔ ان غدودوں میں تھائی رائیڈ اور پیچوٹری اور دوسرے غدود شامل ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین میں خاص طور پر حمل کے اور مینو پاز کے دوران موٹا پا اثر انداز ہوتا ہے۔ بعض خاندانوں میں کچھ غیر صحت مند جینز مختلف افراد میں بھوک لگنے کے باعث بنتے ہیں۔ اس کے علاوہ خاندانی اطوار و عادات بھی کھانے پر اثر انداز ہوتی ہیں جو کہ وزن میں اضافے کا سبب بنتی ہیں۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "قوت بخش غذائی اجزاء سے متعلق امراض" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ