نقل مکانی کے اثرات ⇐ نقل مکانی کے افراد پر مثبت مرتب ہوتے ہیں اگر چہ بعض اوقات مخصوص حالات میں افراد کو مشکلات و مصائب کا سامنا بھی ہوتا ہے لیکن مجموعی طور پر نقل مکانی کاعمل مثبت نتائج کے لیے ہی کیا جاتا ہے لیکن یہ بھی معاشرتی حقیقت ہے کہ کسی علاقے شہروں یا قصبوں پر آبادی کا بوجھہ تیزی سے بڑھنے لگتا ہے تو آبادی کو متعدد مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں اندروں ملک ہونے والی نقل مکانی کی صورت حال کچھ اس طرح سے ہے کہ آبادی کا دباؤ دیہی علاقوں سے نیم شہری اور شہری علاقوں کی طرف ہے۔ آبادی کے اس دباؤ کی وجہ سے مندرجہ ذیل مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔
- منفی ماحولیاتی اثرات
- رہائش کے مسائل
- خوراک (غذا) کا غیر معیاری ہونا قلت ہونا
- ہسپتالوں پر ضرورت سے زیادہ بوجھ
- تعلیمی اداروں پر بوجھ
- غیر منظم سٹریٹ کرائمز کا بڑھنا
- تفریحی سہولیات کے مسائل
منفی ماحولیاتی اثرات
شہری آبادی جب بڑھتی ہے تو ماحولیات کے اثرات سب سے پہلے نمایاں ہوتے ہیں جو نہ صرف انسانوں بلکہ چرند پرند پودے حتی کہ تمام جانداروں پر اثر انداز ہوتے ہیں ۔ گاڑیوں اور فیکٹریوں کے دھوؤں اور دیگر نقصان دہ مادوں کے اخراج سے فضا اور آلودہ ہو جاتی ہے۔ یہ مسئلہ بذات خود ایک سنگین صورت اختیار کر چکا ہے۔
شہروں کےحالات
جب ایک شہر میں لاکھوں لوگوں نے روز ایک جگہ سے دوسری جگہ سفر کرنا ہو تو ان کے لیے یقینا سینکڑوں گاڑیاں سڑکوں پر چلتی ہیں اسی طرح ہزاروں مزدورں کو روز گار دینے والی فیکٹریاں بھی دن رات چلتی ہیں ۔ یہ تمام مسائل صاف اور صحت مند ہوا و فضاء کو انتہائی آلودہ کر دیتے ہیں۔
بے شمار بیماریاں
پاکستان کے بیشتر شہروں کے بیشتر علاقوں میں کھلی فضا اور ہوا میں سانس لینا محال ہو جاتا ہے۔ یہی نہیں جانوروں پرندوںکی صحت پر بھی برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اسی طرح بہت سے درخت پھل اور پودے بھی متاثر ہوتے ہیں
رہائش کے مسائل
انسان کسی پارک میں چہل قدمی کرتے ہوئے کھلے آسمان کے نیچے گھنٹے تو گزار سکتا ہے لیکن پوری زندگی وہ اس طرح نہیں گزار سکتا۔ یقینا اسے ایک اچھی اور موزوں رہائش گاہ کی ضرورت اور خواہش رہتی ہے۔ مہذب معاشرے میں یہ ہر شہر کا حق بھی ہے۔ رہائش کے مسائل کا بھی سامنا اس وقت ہوتا ہے جب آبادی بغیر منصوبہ بندی کے ایک جگہ سے دوسرے مقام پر منتقل ہو۔ افراد کی بھی وجہ سے کسی خاص شہر میں داخل ہوں تو اہم ترین اولین مسئلہ قیام سے متعلق ہوتا ہے کہ کہاں اور کیسے رہائش اختیار کی جائے ؟ نتیجا لوگوں کو غیر معیاری گھروں میں رہنا پڑتا ہے۔
کشادگی کا فقدان
جہاں ہر طرح کی سہولتوں مثلا ہوا پانی روشنی کشادگی کا فقدان ہوتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے گھروں میں زیادہ افراد کی رہائش اختیار کرنا بھی مسائل کا سبب بنتا ہے۔ نا جائز قبضے، تعمیرات جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ شہر میں نئے آنے والوں کو بھی لوٹا جاتا ہے اور ایک رہائش گاہ کی کئی افراد کو فروخت کی جاتی ہے۔ یہ مسائل معاشرتی زندگی پر اثر انداز ہوتے ہیں جب ایک فرد کو رہائش کے مسائل درپیش ہوں گے تو وہ کیسے اپنی بہترین کارکردگی سے اپنے وطن کی خدمت کر سکتا ہے۔ خوف اور محرومی کا احساس فرد واحد کی صلاحیتوں کو بھی بری طرح متاثر کرتا ہے۔
خوراک کا غیر معیاری ہونا قلت ہونا
شہروں کی طرف آبادی جب تیزی سے نقل مکانی کرے تو یقینا نہ صرف خوراک کی قلت کا سامنا ہوتا ہے بلکہ نا جائز منافع خور اور جرائم پیشہ افراد اسی صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اشیائے خوردنی کی مصنوعی قلت پیدا کر دیتے ہیں یا پھر انتہائی مضر صحت طریقوں سے غیر معیاری اشیاء خوردنی بازار میں لاتے ہیں 2012ء میں کراچی کے گردو نواح سے غیر معیاری اور مضر صحت گھی اور کھانے کا تیل بنانے والی فیکٹریاں بند کروائی گئیں ۔
شہروں میں آبادی کا بہاؤ
اس طرح پنجاب کے مختلف علاقوں میں کوؤں کو تیتر اور بٹیر بنا کر فروخت کیا جاتا رہا ہے۔ خیبر پختونخواہ میں انتہائی بیمار اور لاغر جانوروں کے ساتھ ساتھ ممنوع جانوروں کا گوشت بھی فروخت ہوتا رہا ہے۔ یہ تمام جرائم بڑے بڑے شہروں کے قریب ہوتے رہتے ہیں مثلاً کراچی لاہور گجرانوالہ گجرات راولپنڈی اور پشاور وغیرہ۔ کیونکہ ان شہروں میں آبادی کا بہاؤ اور بوجھ بہت زیادہ ہے۔ ضرورت کی تقریبا تمام اشیاء کی تمام مقدار شہروں کے باسیوں کے مقابلے میں انتہائی کم ہے۔
کم آمدنی والے افراد
لہذا اس قسم کے گھناؤ نے جرائم پروان چڑھنے لگتے ہیں ۔ دودھ بھی ایک اہم غذائی جز ہے کم آمدنی والے افراد کے روز مرہ کے کھانے پینے کی اشیاء میں چائے ایک اہم جز ہوتا ہے لیکن اب صورتحال یہ ہے کہ دودھ میں مضر صحت کیمیکل کی ملاوٹ عام ہے اسی طرح چائے کی پتی میں بھی انتہائی زہر یلے کیمیکل شامل کیے جاتے ہیں چینی کے بننے کا عمل بھی کچھ زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے۔ دنیا کے بیشتر پڑھے لکھے لوگوں کے ممالک میں تو اسے زہر کا نعم البدل قرار دے دیا گیا ہے۔
ہسپتالوں پر بوجھ
جب سرکاری ہسپتالوں کی تعمیر کی جاتی ہے اور دوسرے اہم ولازمی اقدامات کئے جاتے ہیں تو اس علاقے کی آبادی کو نظر میں رکھا جاتا ہے ۔ اندرون ملک نقل مکانی کی وجہ سے شہری آبادی میں بے ہنگم اضافہ ہونے لگتا ہے تو ہسپتال بھی آبادی کی صحت سے متعلقہ سہولیات اور خدمات فراہم کرنے سے قاصر ہو جاتے ہیں۔ نتیجتاً مختلف امراض تیزی سے پھیلنے لگتے ہیں
جرائم پیشہ افراد
آبادی کا ایک بڑا حصہ قومی ترقی پر اپنا بھر پور اورمثبت کردار ادا نہیں کر پاتا ہے جبکہ دوسری طرف جرائم پیشہ افراد اور مجرمانہ ذہنیت رکھنے والے پڑھے لکھے افراد بھی کم وقت میں زیادہ پیسے کمانے کی خواہش میں جعلی ادویات کا کاروبار چمکاتے ہیں۔ یہ مسائل مزید الجھتے جاتے ہیں یہی نہیں سادہ لوح اور ان پڑھ مزدوروں کو جعلی ڈاکٹر بھی خوب لوٹتے ہیں۔ اکثر مریض جعلی ڈاکٹر اور ان ادویات کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ خراب صحت رکھنے والے شہری راہ فرار اختیار کرتے ہیں اور نشہ آور ادویات کا استعمال شروع کر دیتے ہیں
جعلی ادویات کا استعمال
جو سنگین مسئلے کی صورت میں معاشرے کو مزید تباہی کی طرف لے جا رہا ہے۔ گندے پانی کے نکاس کا نظام انتہائی بردبار اور غیر صحت مند ہوتا ہے اسی طرح ان علاقوں میں موجود غیر سرکاری ہسپتال اور ڈاکٹر بھی انتہائی برا غیر معیاری غیر قانونی اور غیر اخلاقی انداز اپناتے ہیں مثلاً جعلی ادویات استعمال شدہ سرنج کا دوبارہ استعمال آپریشن کے غیر معیاری اوزار اور جگہ وغیرہ۔۔
سکولوں تعلیمی اداروں پر بوجھ
انسان تہذیب سے اس وقت آشنا ہوتا ہے جب وہ تعلیم و تربیت کے مختلف مراحل سے گزرے۔ والدین اپنی اولاد کو اپنی پوری زندگی میں جو کچھ دیتے ہیں اس میں اہم ترین اور نایاب ان کی اچھی تعلیم اور تربیت ہے۔ دور حاضر میں تعلیمی ادارے یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ جہاں نئی نسل کو تعلیم دیں وہاں ان کی اچھی تربیت میں بھی اپنا مثبت کردار ادا کر سکیں۔ بڑے اور مہنگے تعلیمی اداروں میں بہت حد تک اس ہدف کو حاصل کیا جاتا ہے۔ لیکن سرکاری سکولوں میں آبادی کے میں کے بڑھنے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ سرکاری سکولوں میں اساتذہ کی مخصوص تعداد ہوتی ہے
بد نظمی کا شکار
جو طلباء کی مخصوص تعداد کے لحاظ سے مقرر کی جاتی ہے جب ان سکولوں پر بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ تو سکول بد نظمی کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ نتیجا سکول محض نام کے ہی سکول نظر آتے ہیں۔ تعلیمی معیار تیزی سے گرنے لگتا ہے بے چینی بے سکونی نہ صرف طلباء بلکہ ہیں۔ اساتذہ کو بھی متاثر کرتی ہے۔
جرائم کا بڑھنا
کسی جگہ یا شہر میں جرائم اس وقت بڑھتے ہیں جب وہاں کے لوگوں میں احساس ذمہ داری ختم ہو جائے اور وہ اچھی تعلیم وتربیت سے بھی محروم رہ جائیں۔ جرائم کا بڑھنا کسی ایک وجہ سے نہیں ہے۔ بہت سی وجوہات و اسباب مل کر معاشرے کی قدروں کو کمزور کر دیتی ہیں۔ بہت سی باتیں اور کام جو معیوب سمجھے جاتے ہیں وہ رفتہ رفتہ عام ہونے لگتے ہیں۔ شہروں پر جب آبادی کا بوجھ بڑھتا ہے تو جرائم پیشہ افراد یہ سوچ کر مطمئن ہو جاتے ہیں
روز مرہ زندگی کا حصہ
اب ان تک پہنچنا مشکل ہے یا پھر دوسری صورت میں وہ کچہری اور تھانہ سے وابستہ اخلاقی طور پر کمزور لوگوں سے تعلق بنا لیتے ہیں جو انہیں تحفظ اہتے ہیں اور ان کے بچاؤ کے لیے ہر ممکن اقدامات کرتے ہیں۔ بدلے میں انہیں بھی ضرورت کے مطابق قائدے پہنچائے جاتے ہیں لہذا یہ سلسلہ مضبوط اور طویل ہوتا جاتا ہے۔
نقل مکانی بذات خود ایک معاشرتی عمل
پاکستان آج کل انہی دشوار گزار حالات سے گزر رہا ہے۔ نقل مکانی بذات خود ایک معاشرتی عمل ہے جو ہزاروں سال سے جاری و ساری ہے لیکن اب نقل مکانی کو بھی جدید تقاضوں کے مطابق ہونا چاہیے تا کہ پاکستان کے تمام باشندوں کو زیادہ سے زیادہ سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے نقل مکانی کرنے والوں کو بھی خاطر خواہ نتائج حاصل ہوں۔ مجموعی طور پر ہماری معاشرتی کمزوریوں اور برائیوں کا خاتمہ ممکن ہو اور امن و خوشحالی کا دور دورہ ہو۔
تفریحی سہولیات کے مسائل
صحت و تفریح ، صحت مند معاشرتی زندگی کے لیے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔ آغاز سے ہی انسان فارغ اوقات میں دل بہلانے کے لیے اپنے پسندیدہ مشاغل کا انتخاب کرتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب ان مثبت دا مشاغل کی اہمیت و ضرورت اور بھی بڑھ گئی ہے۔
اللہ تعالی کے بنائے ہوئے نظام
حقیقت تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حاکمیت بھی انہیں چیزوں سے ظاہر ہوتی ہے۔ اللہ تعالی کے بنائے ہوئے نظام کا مطالعہ کسی دباؤ کے بغیر قدرتی نظاروں کو دیکھنا اورسیکھنا انسانی خصلت میں شامل ہے۔ الیکن آبادی کے بے جا دباؤ کی وجہ سے جہاں انسانوں کی رہائش کے مسائل سر اٹھا لیتے ہیں وہاں یقینا تفریحی پارکوں اور کھیل کود کے میدان کی جگہ تنگ اور ختم ہوتی چلی جاتی ہے۔ نتیجتا شہر کے باسیوں میں منفی رجحانات نپپنے لگے ہیں
مختلف نوعیت کے مثبت مشاغل
نہ صرف ان کی ذاتی زندگی کو متاثر کرتے ہیں بلکه اجتماعی زندگی بھی تلخیوں کا شکار ہو جاتی ہے۔ اور یہ سب اس لیے ممکن ہوا کہ ان میں اندرون ملک نقل مکانی کے کچھ ضابطے اور تقاضے ہیں جن ممالک میں شہری آبادی پر اندرون ملک ہونے والی نقل مکانی سے اچانک دباؤ بڑھ جاتا ہے۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “نقل مکانی کے اثرات“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ
……….نقل مکانی کے اثرات ………..