پاکستانی معیشت کی خصوصیات ⇐ زرهی معیشت انحصار زراعت پر ہے۔ ملک کی آباد کا تقریباً ۰ فیصد بلاواسطہ یا بالواسطہ زراعت سے منسلک ہے۔ کل ملکی برآمدات میں زراعت پرانی صنعت ٹیکسٹائل کا تناسب تقریبا ۲۰ فیصد ہے۔ یہی شعبہ ملک میں روزگار کی فراہمی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔
افراط آبادی
پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے۔ اتنا تک سر دے کے طلاق کے دل میں پاکستا کی آبادی کا مینی ۲۴ ملین ہے۔ ۱۹۴۷ میں یہ آبادی ۵ ۲۶ ملین تھی جس میں گزشتہ ۵۷ سالوں میں 17 ملین افراد کا اضافہ ہوا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں آبادی میں اضافے کی شرح فیصد ہے جو دنیا کی بلند شرحوں میں سے ایک ہے۔
غربت
پاکستان کا شارونیا کے غریب ممالک میں ہوتا ہے۔ نہ صرف فی کس آمدنی کے لحاظ سے بلکہ عوام الناس کو دستیاب زندگی کی بنیادی سہولیات کے لحاظ سے بھی پاکستان کا شمار انتہائی پس ماندہ ممالک میں ہوتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان کی آبادی کا تقریبا ۳۵ فیصد خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور اس شرح میں مسلسل اضافے کا رجحان ہے۔
یروز گاری
کئی وجوہات کی بناپر جن میںآبادی میں تیزی سے اضافہ سرمایہ کاری میں کی معاشی جمود، پالیسیوں کی غیر یقینیت زیادہ اہم ہیں، بیروزگاری میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اکنامک سروے 04-2003 ء کے مطابق ملک کی کل لیبر فورس کا تخمینہ ۲۵۰۰ ملین ہے جس میں سے ۲۰ ملین یا ۲۷۰۰۳ فیصد دیہی علاقوں میں اور ۱۳۸۵ ملین یا ۳۲۰۹۷ فیصد شہری علاقوں میں ہے ۔ ۲۰۰۲ ء میں اس میں سے کل برسر روز گار افراد کی تعداد ۳۲ ۲۱۰ ملین ہے جبکہ بقیہ ۷۳ ۳۰ ملین افراد بیروزگار ہیں ۔
ٹیکنا لوجی کی بہت سطح
پاکستان کی معیشت کی ایک اور نمایاں خصوصیت ٹیکنا لوجی کی پست تلا ہے۔ زرعی شعے میں مشینی کاشت کا تناسب خاصا کم ہے جبکہ سنتی شعبے کی پیداوار میں علی ٹیکنالوجی سے پیدا کی گئی اشیا کا تاب بہت کم ہے۔ صنعتی شعبے میں بنیادی اہمیت کے کارخانے، اشیاء سرمایہ کی صنعتیں جن میں لوہے اور فولاد کی صنعت، آلو مو بائل صنعت الیکٹر کس انڈ سٹری اور بھاری کیمیکلز کے کارخانے شامل ہیں، بہت کم ہیں۔ ٹیکنالوجی کی یہ پست صلح بذات خود کی مشکلات کا سبب ہے۔
بالائی ڈھانچے کی کمی
ملک کی معاشی ترقی کے لیے چند بنیادی چیزوں کی فراہمی لازمی ہوتی ہے جن میں ذرائع نقل وحمل اور مواصلات، بینکنگ اور دیگر سہولیات شامل ہیں۔ پاکستان میں ان سہولیات کی کمی ہے جس کی وجہ سے صنعت کاری کا عمل تیز نہیں ہو پاتا۔
اشیاء سرمائے کی کمی
اشیاء سرمایہ سے مراد مشینیں، آلات ، اوزار، عمارات ، کارخانے اور دیگر اثاثہ جات ہوتے ہیں۔ ان اثاثوں کی تشکیل کی شرح بہت کم ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بچتوں میں کمی ہے جس کی وجہ سے مناسب مقدار میں وسائل دستیاب نہیں ہو پاتے۔
زرعی شعبے کی پس ماندگی
اگر چہ پاکستان کی معیشت کا انحصار زرعی شعبے پر ہے تاہم یہ شعبہ پس ماندگی کا شکار ہے۔ اس کی پس ماندگی کی سب سے بنیادی وجہ جا گیر دارانہ نظام ہے جو بذات خود کئی خرابیوں کی جڑ ہے۔ زرعی شعبے کی پس ماندگی کی وجہ سے ملک کی ۵۰ فیصد آبادی پسماندگی کا شکار ہے۔
پس ماندہ ادارتی نظام
معاشی ترقی محض کارخانوں ، آلات اور دیگر اثاثوں میں اضافے کا ہی نام نہیں ہے، اس کے لیے ساجی اور ثقافتی اداروں مثلاً خاندان، مذہب، زندگی کے بارے میں لوگوں کے عمومی رویے مستقبل کی امنگ اور دیگر عوام کی بھی یکساں ضرورت ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے تعلیم کی کی اور دیگر کئی عوامل کی وجہ یہ کر سے یہ ادارے اپنا مثبت کردار ادا نہیں کر پارہے ہیں بلکہ اکثر صورت حال میں پس ماندگی میں اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔
آبادی کی ساخت
پاکستان کی آبادی کی ساخت کچھ اس طرح ہے کہ کل آبادی کا ۴۵ فیصد ۱۳ سال تک کی عمر کے بچوں پر مشتمل ہے۔ کل آبادی کا محض 35 فیصد پیداواری سرگرمیوں میں مصروف ہے۔ خواندگی کا تناسب تقریبا ۵۴ فیصد ہے اس میں بھی نصف ان بچوں کی تعداد پر مشتمل ہے جو پرائمری تک اور اس سے کم سطح کی تعلیم کے حامل ہیں۔ تربیت یافتہ آبادی کا تناسب محض دو فیصد کے قریب ہے۔
توازن ادائیگی میں خسارہ
پاکستان کا توازن ادائیگی مسلسل خسارے کا شکار ہے۔ قیام پاکستان سے لیکر آج تک، نصف صدی سے زائد عرصے میں صرف تین سال یہ توازن پاکستان کے حق میں رہا ہے بقیہ تمام عرصے میں یہ نا موافق رہا۔ اس کی بنیادی وجہ برآمدات میں اضافہ نہ ہونا، درآمدات میں غذائی اجناس کے تناسب میں اضافہ اور غیر مرئی مدات کے بوجھ میں مسلسل اضافہ ہے۔
صنعتی پس ماندگی
پاکستان نے صنعتی لحاظ سے یقینا نمایاں ترقی کی ہے اور بعض شعبوں میں اس کی کارکردگی بہت نمایاں ہے۔ تاہم اس کے باوجود پاکستان صنعتی شعبے میں مجموعی طور پر نمایاں ترقی نہیں کر سکتا ہے۔ بالخصوص اشیا سرمایہ کی صنعتوں، بنیادی بھاری صنعتوں اور ایڈوانس ٹیکنالوجی کے حوالے سے صنعتی شعبے کی ترقی نمایاں نہیں ہے۔
سماجی شعبوں کی بہت کار کردگی
پاکستان میں برسر اقتدار آنے والی تمام حکومتوں نے بلا کسی استثنا سماجی شعبوں کی ترقی پر کوئی خاص توجہ نہیں دی۔ ان شعبوں میں تعلیم صحت اور دیگر سماجی شعبے شامل ہیں۔ ان شعبوں پر اخراجات کا تناسب ہمیشہ کم رہا ہے جس کی وجہ سے تعلیم صحت اور دیگر حوالوں سے صورت حال خاصی خراب ہے۔ اکنامک سروے ۲۰۰۳۰۴ء کے مطابق پورے ملک میں خواندگی کی شرح ۵۴۰۰۰ فیصد ہے۔ جس میں مردوں کا تناسب ۲۶۰۲۵ فیصد اور عورتوں کا تناسب ۴۱۰۷۵ فیصد ہے۔ ۱۴۰۴ افراد کیلئے ایک ڈاکٹر 27414 افراد کیلئے ایک ڈینٹسٹ اور 3296 افراد کیلئے ایک نرس دستیاب ہے۔ جبکہ ۵۳۶ / افراد کے لیے ہسپتال میں ایک بستر ہے۔
دولت کی تقسیم عدم مساوات
پاکستانی معیشت کی ایک اور نمایاں خصوصیت دولت کی تقسیم میں نمایاں عدم مساوات ہے۔ پورے ملک کی دولت کا بہت بڑا حصہ ایک محد در اقلیت کے پاس ہے، جبکہ کل آبادی کا بہت بڑا تناسب کل وسائل میں سے محض چند فیصد کا حصے دار ہے جس کی وجہ سے پورا معاشرہ دو طبقات یعنی دولت مند اور غربا مں تقسیم ہورہا ہے اور ان دونوں کے مابین خلیج تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
غیر مکی اماد پر انصار
پاکستان کی معیشت کا بہت حد تک انحصار غیر مکی امداد پر ہے جس کی وجہ سے ملک پر بیرونی قرضوں کا بوجھ مارچ ۲۰۰۴ء میں تقریبا ۲۵ / ارب ڈالر تھا۔ ہر سال ان قرضوں پر سود کی مد میں ایک خطیر رقم ادا کی جاتی ہے جس سے ترقیاتی کاموں کے لیے وسائل بہت محدود ہو جاتے ہیں ۔
وسائل کا عدم استعمال
پاکستان کواللہ تعالی نے بے شمار وسائل سے نوازا ہے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ایسے کئی مقامات ہیں جہاں سے پن بجلی کی وسیع مقدار حاصل کی جا سکتی ہے، صوبہ بلوچستان مختلف قسم کی معدنیات سے مالا مال علاقہ ہے، پاکستان کے شمالی علاقہ جات سیاحت کے نقطہ نگاہ سے بہترین مقامات ہیں۔ ملک میں پیٹرو کیمیکلز کی صنعت کے لیے وسیع مقدار میں خام مال دستیاب ہے، پنجاب اور سندھ کی زمینیں دنیا کی بہترین زرخیز زمینوں میں شمار ہوتی ہیں ، ساحلی علاقوں میں پام کے درختوں کی پیداوار کے امکانات موجود ہیں۔ یہ اور اس کے علاوہ کئی دیگر وسائل ایسے ہیں جو استعمال کیے جانے کے منتظر ہیں۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "پاکستانی معیشت کی خصوصیات" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ