پاکستان میں زرعی اصلاحات ⇐ پاکستان میں زرعی اصلاحات کو تین ادوار کے تحت زیر بحث لایا جا سکتا ہے پہلا دور قیام سے لے کر 1998 ء دوسرا دور کے لاء کے تحت تھا اور اور 1972 کیا کرتی ہو پاکستان سے لے کر 1958 ء تک ، دوسرا دور ایوب خان کے مارشل لاء کے تحت تھا اور تیسرا دور 1972ء کی زرعی اصلاحات کا تھا۔ پہلے دور کی اصلاحات کا تعلق زیادہ تر سطحی مسائل کے حل سے تھا۔ وہ اقدامات جو کہ زراعت کی ترقی کے لئے درکار تھے وہ اس دور میں ہر گز نہیں اٹھائے گئے بہر حال اس سلسلے میں ابتداء ہوگئی تھی اس دور میں اصلاحات کا اعلان، جاگیرداری کا خاتمہ زمیندار اور مزارع کے تعلقات کو بہتر بنانا ، مزارعین کے حقوق کا تحفظ وغیرہ یہ اصلاحات مغربی پاکستان میں ایک وحدت کے قیام سے پہلے نافذ کی گئی تھیں یہ اصلاحات مغربی پاکستان کے تمام صوبوں نے علیحدہ علیحدہ اور اپنے صوبے کے خصوصی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے نافذ کیں مرکزی حکومت نے اس جانب اس وقت قدم اٹھائے جب کہ ایوب خان کی فوجی حکومت 1958 ء میں برسراقتدار آئی اس حکومت نے ایک اصلاحات اراضی کمیشن قائم کیا جس نے بعض انقلابی اصلاحات نافذ کیں جن پر عمل درآمد بھی کیا گیا۔
قیام پاکستان سے 1958 ء تک
اس دور میں مسلم لیگ اسلامات کیلی” کی سفارشات کے علاوہ مخلف صوبوں میں زرعی اصلاحات کے قوانین اور منصوبہ بندی بورڈ کی اصطلاحات کا ذکر کیا جائے گا۔ پاکستان بنے کے فورا بعد زرعی شعبہ میں بنیادی لوحیت کی خرابیاں محسوس کی گئیں جس کی وہ ساری ہے اور پر پراش پر ہاتھ ان راہوں کا تین نظام اراضی سے اس صورتحال کو اتر جائے کے لئے مسلم لیگ نے ایک میٹی قائم کی جس نے 1949ء میں اپنی سفارشات پیش کی تھیں جو حسب ذیل ہیں۔ جاگیرداری کو منسوخ کر دیا جائے اور بڑی زمینداریوں کولم کرکے زمین مزار میں میں تقسیم کردی جائے کسی مخلص کے پاس تیری زمین کے 150 ایکڑ اور باراتی کے 1450 کیٹر سے زیادہ زمین رکھنے کی اجازت نہ دی جائے جس کے پاس فالتو زمین جوان کو معاوضہ لے کر حکومت زمین حاصل کر سکتے۔ کسی زمیندار کو 15 لاکھ سے زیادہ معاوضہ دیا جائے۔ 3 موروئی مزارعین ( جن کو زمیندار کی زمین کاشت کرنے کا حق مستقل طور پر رہا ہوکو حق ملکیت دیا جائے مزارع تابع مرضی کے حقوق کی حفاظت کی جائے اور مزارع کو کم سے کم چدرہ سال مدت کے لئے سہولت دی جائے۔ پیداوار میں مزارج کا حصہ زیادہ کیا جائے اور ہر قسم کی ناجائز وصولیوں کی روک تھام کی جائے۔ زرعی کسانوں کی زمین چھوٹے چھوٹے کھیتوں میں بٹ جانے اور بکھر جانے کا مناسب سد باب کیا جائے اور امداد باہمی کے طریقے کاشت کو فروغ دیا جائے۔
اعتراضات
زمینداروں کو دیا جانے والا معاوضہ بہت زیادہ تھا اس کی کل رقم 14 ارب روپے بنتی تھی جس میں سے 3 ارب روپے کی رقم نقد ادا کی تھی یہ رقم ہمارے کا شنگاروں کی طاقت سے باہر تھی۔ 2 ذاتی ملکیت کے لئے زمین کی جوعد مقری کی کی دو بہت زیادتی اس کمی کم کیا جانا چاہیے تھا۔ ان سفارشات سے موروئی کا شکاروں کو کچھ فائدہ پہنچا جبکہ مزاج تاریخ مرضی مخسارے میں رہے۔
قانونی مزارعیت
ان اعتراضات اور زمینداروں کے اثر ورسوخ کی بین ایران اصلاحات پر اس وقت کی حکومت عمل در آمد نہ کروا کی ایک فائدہ جو کہ حاصل ہوا وہ یہ تھا کہ ہر صوبے میں کاشتکاروں کی بھلائی اور ان کے تحفظ کے لئے مختلف قسم کے اقدامات اٹھانے کا راستہ کھل گیا 1950ء اور 1952ء کے عرصے میں تمام صوبوں نے اپنے اپنے علاقے میں کا شتکاروں کے مفادات کو ملا دینے کے لئے پاس کئے اور انپر عمل درآمد کر دیا گیا اس سلسلے میں سندھ میں 1950 ء میں پاس ہو اس قانون کے ذریعہ کا شکاروں کو بے دلی سے بچانے کے لئے الہامات کئے گئے اور زمینداروں کو ہی کیا کہ و کاشتکاروں سے بیگار کام نہ لیں اس کے علاوہ الگان کے بڑھنے کے سلسلے میں زمینداروں پر سی پابندیاں لگا دی گئیں۔ اس قانون کی بدولت کا شکار کی حالت بالکل نہ بدلی کیونکہ زمیندار بڑا چالاک، مکار اور طاقتور تھا جب ک کا شکار مبال در قریب تھا پنجاب کے صوبے میں 1950ء اور 1952ء کے درمیان کے حصہ میں کاشتکاری کے بارے میں مختلف قوانین پاس کئے گئے ان قوانین کے ذریعہ مندرجہ زیل با میں طے کی گئیں۔ جاگیرداریاں ختم کر دی جائیں گی۔ زمینداروں کی طرف خود کاشت پر ایک حد مقرر کر دی گئی کہ وہ 150 ایکٹر خود کاشت کر سکے کا رقبہ کاشت کاروں کو کاشت کے لئے دیا جائے گا۔ زرگی پیداواری زمیندار اور کا شکار کا حص بالترتیب 10 فیصد اور 60 لیسد مستر کیا گیا۔ کا شکاروں کی بے دلی روکنے کے لئے مخلف اقدامات کئے گئے تے تھا کہ کا شکار جوان قوانین کے پاس ہونے سے پہلے بے دخل کر دیئے گئے تھے ان کو بھی دو زمین جمال کی گئی۔ جہاں تک مقاصد حاصل کرنے کا تعلق ہے یہ قوانین کی بری طرح نا کام ہو گئے کیونکہ اس صوبہ میں زمیندار بہت مضبوط پوزیشن میں تھے یہاں تک کہ حکومتیں ان کے اشاروں پر اتی تھیں زمیندار قوانین میں کٹوریاں تلاش کرتے رہے تھے اور قوانین پر مل نہ کرنے کے بہانے تراشتے تھے۔ اس قسم کے قوانین صوبہ سرحد میں 1950ء اور 1952ء کے درمیانی عرصہ میں نافذ کئے گئے یہاں پربھی کاشتکاروں کی نمایاں طور پر سالت نہ بدلی کینک کا شکار اور زمین کی وہی پوزیشن بھی لیکن ان کی وجہ سے جو کہ پنجاب اور سندھ میں تھی۔
منصوبہ بندی بورڈ کی تجاویز
1957ءمیں پاکستان کے پہلے منصوبہ بندی بورڈ نے زرعی معیشت کی حالت بہتر بنانے کے لئے کچھ زرعی اصلاحات تجویز کیں۔ زمین میں شخصی ملکیت کا حق برقرار رکھاجائے البتہ اس کی انتہائی حد مقرر کردی جائے ۔ زائد زمین مناسب معاوضہ دینے کے بعد حاصل کی جانی چاہیے یہ معاوضہ کا شتکاروں کو معقول قسطوں کی صورت میں ادا کرنا چاہیے کاشت کاروں کو اس زمین میں مکمل حقوق ملکیت حاصل ہونے چاہئیں۔ مزارعین کی حفاظت کے لئے مناسب قوانین نافذ کئے جائیں انتشار اراضی قانونی طور پر روک دیا جائے اور ایسا طریقہ کار اپنایا جائے جو کہ قوانین موروثی سے ٹکراتا نہ ہو چھوٹے چھوٹے کاشت کے ٹکڑوں کو معاشی قطعات کی صورت دی جائے ۔ منصوبہ بندی کمیشن کی سفارشات پر ابھی عمل در آمد ہوتا تھا کہ ملک میں 1958ء میں مارشل لاء نافذ ہو گیا اور انقلابی حکومت نے زرعی اصلاحات نافذ کرنے کے لئے ایک کمیشن قائم کیا۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "پاکستان میں زرعی اصلاحات" کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ