پودوں کی حفاظت کی ضرورت اور اہمیت بیان کریں

پودوں کی حفاظت وضرورت

پودوں کی حفاظت کی ضرورت اور اہمیت بیان کریں انسانوں اور کیڑوں کے درمیان خوراک کیلئے ایک زبردست کھینچا تانی رہتی ہے۔ انسان اپنی محنت سے جو فصل بھی کیٹروں کا بھی اچھا خاصا حصہ ہوتا ہے۔ نقصان دہ کیڑوں اور جانوروں نے کاشت کرتا ہے اس کی پیداوار میں عام طور پر انسانوں کی خوراک ضائع کرنے کیلے جو کام کئے ہیں وہ شاید بھی نہیں بھلائے جاسکتے ۔ اس لڑائی اور مقابلے کی وجہ سے پودوں کی حفاظت کی ضرورت پیش آئی۔ اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ پرانے زمانے میں نہ تو کوئی کیڑے تھے اور نہ ہی پودوں پر حملہ کرنے والی کوئی بیماریاں تھیں۔ یہ خیال درست نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ کیڑے اور بیماریاں تقریبا آج بھی اسی نوعیت کی ہیں۔ البتہ وقت کے ساتھ ساتھ بہتر آب و ہوا اور ماحول ملنے کی وجہ سے ان میں تبدیلی یا اضافہ ہوتا رہا ہے۔

پودوں کی حفاظت کی ضرورت اور اہمیت بیان کریں

کیروں اور بیماریوں کی تباہ کاریاں

میں ہندوستان کے مختلف علاقوں میں کئی بار قحط پڑا۔ انسان کی ۱۸۶۵ ، اور ۱۸۹۷ء کے درمیانی عرصے خوراک میں زبردست کمی کی وجہ سے ۱۴۰ که آدمی بھوک سے مر گئے۔ بنگال کے قحط سے کون واقف نہیں جس کے نتیجے میں ۳۰ لاکھ آدمی بھوک سے مر گئے تھے۔ جنگ عظیم کے وقت بنگال کے قحط میں ہزاروں انسانوں کی جائیں ضائع ہوئیں۔

گودام کے مشہور کیر یک پر اسری، ڈھورا، آٹے کی سری  چاول کی سری۔

بارشوں کی کمی کے ساتھ ساتھ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ گوداموں میں ذخیرہ کی گئی اجناس کو حملہ آور کیڑوں نے تباہ کر کے ناقابل استعمال بنادیا ہے ۱۸۳۵ء میں آئر لینڈ میں آلو کی فصل پر آلو کی چھیتی جلساؤ کی بیماری کا امتاز بردست حملہ ہوا کہ اس بیماری نے تمام یورپ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ جس کے نتیجے میں زبردست قحط پڑا۔ خوراک نہ ملنے کی وجہ سے لاکھوں لوگ بھوک سے مر گئے اور لاکھوں لوگوں کو اپنی خوراک کی تلاش میں دوسرے ملکوں کی طرف جانا پڑا۔ سری لنکا چائے کی کاشت کیلئے بہت مشہور ہے۔ اس ملک میں شروع شروع میں چائے کی بجائے کافی کے باغات ہوا کرتے تھے لیکن بعد میں کافی کے پودے ایک خاص قسم کی بیماری کے حملہ سے تباہ ہو گئے۔ جس کے نتیجے میں چائے کی کاشت پر زیادہ توجہ دی جانے لگی۔ ۱۹۴۳ء میں بنگال کے قحط کی وجہ دھان کی فصل پر جھلساؤ ”  کی بیماری بتائی جاتی ہے۔ اس بیماری کے حملے سے دھان کی پیداوار میں ۲۷ فیصد کی ہوگئی تھی۔ مدی دل کا حملہ ایک عذاب الہی ہے۔ یہ کسانوں کا بدترین دشمن ہے۔ منڈیاں جب اپنی اڑان کے بعد زمین پر بیٹھتی ہیں ۔ تو زمین ان سے بالکل ڈھک جاتی ہے۔ ان کے سامنے کسی قسم کا بھی مزہ آجائے دیکھتے ہیں دیکھتے چٹ کر جاتی ہیں۔ دنیا میں ہر شخص ان کی تباہ کاریوں سے خوف زدہ ہے۔  ۱۹۷۸ ء میں وفیس میں ندیوں کے حملے سے زبردست قحط پڑا جس کے نتیجے میں ہزاروں لوگ بھوک سے مر گئے۔ ۱۹۲۶-۳۴ء ہندوستان میں زرعی اجناس کو ۴۰ لاکھ روپے سالانہ کا نقصان ہوا۔ ۱۹۴۴ء میں لیبیا میں انگور کی ستر لاکھ بیلیں تباہ ہو گئیں۔ ۱۹۵۴ء میں سوڈان میں ۵ لاکھ من زرعی اجناس تباہ ہوئیں۔ ۱۹۵۴۵۵ء میں مراکش میں زرعی فصلات کا ساڑھے چار کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ ۱۹۵۷ء میں گنی کے ملک میں ٹڈی دل تقریبا ساڑھے چار کروز من ترشادہ پھل ( مالٹا سنگتر و لیموں چٹ کر گئے اسی سال سینی گال میں ساڑھے چار کروڑ من جوار اور باجرے کا عملہ تباہ ہوا۔ ۱۹۶۱ء میں پاکستان میں دس کروڑ روپے کا نقصان ہوا۔ ۱۹۶۲ ء میں ہندوستان میں دولاکھ اسی ہزار من کپاس تباہ ہوگئی۔ ۲۴ – ۱۹۶۳ء میں صوبہ سندھ میں نڈی دل نے گندم کی تمام فصل کا صفایا کر دیا۔ اس حملے کی وجہ سے کسانوں کو گندم کی فصل دوبارہ کاشت کرنا پڑی۔  ۱۹۷۸ ء کا سال بھی خطرے سے خالی نہ رہا۔ پنجاب کے بہت سے علاقے اس موذی کیڑے کی پیٹ میں آگئے ۔ اس سال بارشوں کی وجہ سے ضلع تھر پارکر اور بھارت کے ریگستانی علاقوں میں ٹڈی دل کی آبادی میں لاکھوں کی تعداد میں اضافہ ہوا۔

ملکی معیشت میں پودوں کی حفاظت کی اہمیت

 پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور فصلوں کی پیداوار میں کی سے پاکستان جیسے زرعی ملک کی معیشت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ ویسے فصلوں کی پیداوار میں کی کی کئی وجوہات ہیں لیکن کیڑوں اور بیماریوں کی وجہ سے جو نقصانات ہوتے ہیں ان کی کچھ تفصیل درج ذیل ہے۔ بلا شبہ دنیا کے بہت سے ممالک میں زرعی پیداوار کیلئے ۷۸ ۱۹۷۷، ایک کامیاب سال کہا جا سکتا ہے۔ اس سال کے دوران مختلف ملکوں میں گندم کی اچھی فصل کی وجہ سے پیداوار میں کافی اضافہ ہوا۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان میں گندم کی فصل کلی کی بیماری سے بری طرح متاثر ہوئی اور اس بیماری کے شدید حملے کی وجہ سے گندم کی پیداوار میں، انفیصد کمی واقع ہوئی۔

گندم انماری سب سے بڑی فدائی جنس ہے اور ہمارے ملک میں ربیع کی ایک اہم فصل ہے۔ ۱۹۷۸ ء میں غیر موزوں سوئی تبدیلیاں یعنی کم درجہ حرارت زیاد و بارشوں اور بادلوں والا موسم کنگی کے موذی بیماری کے پھیلانے کا سبب بنے۔

گندم کی چند مشہور سفارش کردہ اقسام

ملا بارانی ۷۰، ایس اے ۴۲، پوٹھوار ، پنجاب (۷۶) میں کلی کے حملے کا مقابلہ کرنے کی طاقت نہ رکھتی تھیں۔ اس لئے نقصان زیادہ ہونے کی وجہ سے گندم کی پیداوار میں کی واقع ہوئی۔ اس کے نتیجے میں ان اقسام کی کاشت پر پابندی لگادی گئی ہے۔

خریف کی فصلیں

پاکستان کی خریف کی تین مشہور نقد آمد نی دینے والی فصلیں وحان ، کپاس اور گنا ہیں۔ جو ہمارے ملک کیلئے زر مبادلہ کھانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ مگر بد قسمتی سے ہر سال کیڑے اور بیماریاں ان فصلوں کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ اسی طرح ان کی پیداوار میں کی ہو جاتی ہے۔ ۱۹۷۰ء میں ہمارے ہاں دھان کی فصل پر تنے کی سنڈ یا کا انتاز بر دست حملہ ہوا کہ بہت سے کسان اپنی فصل کی پیداوار سے بالکل نا امید ہو گئے بلکہ انہیں کھڑی فصل کو مجورا کھیت ہی میں جلا دینا پڑا۔ ۱۹۷۷ – ۱۹۷۵ء میں کپاس کی فصل کوئینڈوں کی سنڈی بشکری سنڈی اور خاص کر دیں چونے والے کیڑوں نے بہت نقصان پہنچایا۔ اس کے علاوہ کئی بیماریوں نے بھی اپنا کمال دکھایا۔ ان میں خاص کر جرائیں جھلساؤ جیسی مہلک بیماری نے بہت تباہی مچائی۔

گنے کی فصل

ہماری تیسری اہم فصل گنا ہے۔ دنیا کے گنا پیدا کرنے والے ملکوں میں ہمارا ملک چوتھے نمبر پر آتا ہے۔ اس فصل کو مختلف قسم کے گڑو دیں  زیر دست نقصان پہنچاتے ہیں ۔ ۷۸ – ۱۹۷۷ء میں کمار کے بہت سے کھیت گورداس پوری گزوریں کے حملے سے جاو ہو گئے ۔ گردوں کی روک تھام کی طرف خاص توجہ کی ضرورت ہے۔ ڈر ہے کہ کہیں اتارے کسان حضرات کا دیسی اہم فصل کی کاشت کم نہ کر دیں ۔ ۷۹ – ۱۹۷۸ ء میں بھی فصل ان موزی کیڑوں کی لپیٹ میں آئی تھی۔ اس طرح ہماری شکر سازی کی صنعت کو بھی زبردست خطرہ درپیش ہے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کو "پودوں کی حفاظت کی ضرورت اور اہمیت بیان کریں"  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                 

👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

MUASHYAAAT.COM

Leave a comment