گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ

گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ ⇐ قانون ولی نا بالغاں(گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ) نا بالغ کے مفاد کیلئے بنایا گیا ہے اور اس کا بنیادی مقصد نا بالغ کی ذات اور جائیداد کی حفاظت اور نگہداشت کرنا ہے۔

گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ

بهترین نگہداشت

باپ بچے کا فطری ولی ہوتا ہے بچے کی بهترین نگہداشت اور تعلیم و تربیت باپ کی ذمہ داری ہے لیکن باپ کا انتقال ہو جائے یا قانون کی نظر میں باپ ولی ہونے کا اہل نہ ہو تو ایسے نا بالغ ( بچے ) کی ذات اور جائیداد کی حفاظت کیلئے اہل شخص کو ولی مقرر کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔

فیملی کورٹ 

حکومت نے ہر ضلع میں مخصوص عدالتیں قائم کی ہیں جنہیں فیملی کورٹ کہتے ہیں ۔ ان کے قیام کا مقصدنا بالغ کی فلاح و بہبود کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس کی ذات اور جائیداد کیلئے ولی کا تقرر کرنا مقرر کردہ ولی کی ذمہ داریوں اور اس کو حاصل حقوق کا تعین کرنا ہے تا کہ ولی اس نا بالغ کی پرورش، صحت اور تعلیم و تربیت کا مناسب بندو بست کر سکے ۔

عدالت کے پیش نظر

علاوہ ازیں یہ امر بھی عدالت کے پیش نظر ہوتا ہے کہ ولی نا بالغ کی جائیداد سے ذاتی مفاد حاصل نہ کرنے پائے ۔ اس ایکٹ میں ولی کی تقرری کے ساتھ ساتھ اس کی برطرفی یا سبکدوشی کا طریقہ کار بھی بتایا گیا ہے اور لا پرواہی یا غفلت برتنے والے ولی کیلئے سزا بھی مقرر کی گئی ہے۔

سرپرستی کے بارے میں حکم دینے کا عدالتی اختیار

گارڈین اور وارڈز ایکٹ کی دفعہ 7 کی رو سے نا بالغ کے ولی کی تقرری کے وقت عدالت کے سامنے سب سے اہم مسئلہ نا بالغ کی ذاتی نگہداشت یا اس کی جائیداد کی نگہداشت و تحفظ ہوتا ہے ۔

تعلیم و تربیت

کسی نا بالغ کا ولی مقرر کرنے کیلئے دائر کی گئی درخواست پر عدالت کا باغ کی فلاح کو اولین اہمیت دیتی ہے۔ اگر عدالت یہ محسوس کرے کہ نا بالغ جس خاندان سے تعلق رکھتا ہے وہ خاندان اس کی ذاتی نشو ونما اور تعلیم و تربیت پر مناسب توجہ دے رہا ہے اور نا بالغ کی کسی جائیداد کی صورت میں اس جائیداد کی بھی مناسب دیکھ بھال کر رہا ہے تو ایسی صورت میں عدالت نا بالغ کی ذات اور جائیداد کی نگہداشت کیلئے کوئی ولی مقرر نہیں کرے گی۔

اختیارات کا تعین

البتہ کافی وجو ہات کے سبب اگر عدالت یہ محسوس کرے کہ نابالغ کا ولی نہ مقرر کرنے کی صورت میں اس کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تو عدالت درخواست پر غور کر کے کسی مناسب شخص کو نا بالغ کا ولی مقرر کرے گی اور اس کے اختیارات کا تعین کرے گی ۔

 کون سے اشخاص ولی مقرر ہونے کیلئے درخواست دے سکتے ہیں

قانون ولی نا بالغاں کی رو سے نا بالغ کی  ذات جائیداد یا   ذات اور جائیداد کا ولی مقرر ہونے کیلئے درج ذیل اشخاص عدالت میں درخواست دائر کر سکتے ہیں۔

 کون سے اشخاص ولی مقرر ہونے کیلئے درخواست دے سکتے ہیں

عدالت کو ولی مقرر

ایسا شخص جوتا بالغ کا ولی ہونے کا خواہش مند ہے یا دعویدار ہے اور وہ نا بالغ کا رشتہ دار یا قریبی عزیز ہے چچا تایا یا خالہ یا ماموں وغیرہ ۔ اس کے علاوہ اگر نا بالغ کے والدین نے خود کوئی وصیت کی ہو یا تحریری طور پر کسی شخص کو اپنی زندگی میں نا بالغ کا ولی مقرر کیا ہو تو ایسا شخص بھی عدالت کو ولی مقرر ہونے کی درخواست دے سکتا ہے۔

مقامی علاقہ

نا بالغ کے رشتہ دار یا دوست۔ ضلع یا کسی دیگر مقامی علاقہ کا کلکٹر جس کے حلقہ میں نا بالغ عام طور پر سکونت پذیر ہو یا جس میں اس کی و جائیداد ہو۔وہ کلکٹر جے اس طبقہ پر کوئی اختیار ہو جس سے نا بالغ کا تعلق ہو۔

درخواست دائر

عدالت کسی شخص کو اس وقت تک ولی مقرر نہیں کر سکتی جب تک کہ ایسا شخص عدالت کو نا بالغ کی ذات اور جائیداد کیلئے ولی مقرر ہونے کی درخواست نہ دے۔ اس کے علاوہ نابالغ کا قانونی ولی بھی ایسی درخواست دائر نہیں کر سکتا کیونکہ وہ پہلے ہی نا بالغ کا قانونی ولی ہوتا ہے۔

ولی مقرر کرتے وقت عدالت کے پیش نظر امور 

عدالت نا بالغ کیلئے ولی مقرر کرتے وقت درج ذیل امور کو پیش نظر رکھے گی

نا بالغ کی عمر

مذہب

جنس

تجویز کردہ ولی کا کردار اہلیت اور نابالغ سے قرابت داری

فوت شدہ والدین کی خواہش (اگر کوئی ہو )

مجوز و ولی کا نام بالغ ہونا یا اس کی جائیداد سے کوئی متعلق

مجوزہ ولیوں

اگر نا بالغ اس قدر با شعور ہو کہ مجوزہ ولیوں میں کسی ایک کو ترجیح دے سکے تو عدالت نا بالغ کی ترجیح کو اہمیت دے گی۔

طے شدہ اصول

یہ طے شدہ اصول ہے کہ نا بالغ کیلئے ولی کا تقرر کرتے وقت متعلقہ عدالت سب سے پہلے نا بالغ کے مفاد کو ترجیح دے گی۔ اس کے علاوہ عدالت درج ذیل امور بھی پیش نظر رکھے گی

طے شدہ اصول

نا بالغ کی عمر 

نا بالغ کی عمر کی اہمیت اس لئے ہے کہ اگر نا بالغ شیر خوار بچہ ہے اور اس کی والدہ حیات ہے تو اس کی پرورش والدہ سے بہتر کوئی نہیں کر سکتا۔

جائیداد کی دیکھ بھال

اسکے علاوہ اگر نا بالغ سن بلوغت کو پہنچنے والا ہو تو عدالت مناسب خیال ہوتو کرتی ہے کہ اس کیلئے کوئی ولی مقرر کیا جائے۔ مثلاً اگر نا بالغ 17 سال کا لڑکا ہے اور ایک سال بعد وہ سن بلوغت کو پہنچ کر اپنی جائیداد کی دیکھ بھال کر سکتا ہے تو اس کیلئے ولی مقرر کئے جانے کے باعث اسکی بلوغت میں تین ۔ سال کا اضافہ ہو جائے گا اسلئے اس مرحلے پر عموماً عدلت ولی مقرر نہیں کرتی۔

نا بالغ کی جنس

عدالت ولی کا تقرر کرتے وقت نا بالغ کی جنس کا بھی خیال رکھتی ہے۔ عدالت کو اختیار حاصل ہے کہ نا بالغ لڑکی کا ولی کسی عورت کو مقرر کرے ۔ اسلامی قوانین کی رو سے ماں سات سال تک لڑکے کی اور سن بلوغت تک لڑکی کی سر پرستی کی اہل ہے۔ ماں صرف اس صورت میں بچے کی سر پرستی کے حق سے محروم ہو جاتی ہے جب شرعاً اس کو غیر مستحق یا نا اہل قرار دیا جائے۔

نا بالغ کا مذہب

اصولی طور پر کسی بھی بچے کا مذہب وہی تصور ہوتا ہے جس مذہب پر اس کا باپ ہوتا ہے۔ اگر ماں ہندو ہو اور باپ عیسائی تو ایسی صورت میں بچے کا مذہب عیسائیت ہو گا اسلئے ایک ایسا شخص بچے کی ولیت کا زیادہ حق دار قرار پائے گا جو بچے کی پرورش اور نگہداشت اسکے باپ کے مذہب کے مطابق کرے۔

 تجویز کردہ ولی کا کردار اہلبیت اور نابالغ سے قرابت داری

کوئی بھی شخص جو نا بالغ کے مفاد سے متضاد مفاد رکھتا ہو اسے نا بالغ کا ولی مقرر نہیں کیا جاسکتا۔ نا بالغ کی پرورش اس کی جائیداد کے معقول انتظام کیلئے ضروری ہے کہ مجوزہ ولی ایماندار ہو مضبوط کردار اور اچھے چال چلن کا مالک ہو ۔ اس کے علاوہ اپنے فرائض کو بطریق احسن ادا کرنے کی پوری اہلیت رکھتا ہو کیونکہ اس پر نا بالغ کی بہتر پرورش کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔

قریبی رشتہ داری

ولایت کا تعین کرتے وقت عدالت ولی کے نابالغ سے تعلق اور رشتہ داری کو بھی مدنظر رکھے گی ۔ عموماً خونی رشتوں کو دوسرے لوگوں پر ترجیح دی جاتی ہے ۔ باپ کے بعد سر پرستی کا حق ماں کو ہوتا ہے ۔ ماں کو دادی پر ترجیح حاصل ہے لیکن سوتیلی ماں کو یہ حق حاصل نہیں ہے۔ باپ اور دادا بچے کے حقیقی ولی ہیں۔

قریبی رشتہ داری

 فوت شدہ والدین کی خواہشات 

قانون ولی مقرر کرتے وقت فوت شدہ والدین کی خواہشات کا احترام کرتا ہے۔ اگر نا بالغ کے والدین نے کوئی وصیت کی ہو تو والدین کی خواہش کو دادا کی خواہش پر فوقیت حاصل ہوگی ۔ عدالت کیلئے اہم بات نا بالغ کا مفاد ہے اور عدالت کو  اختیار حاصل ہے کہ وہ متوفی والدین کی خواہشات پر نا بالغ کے مفاد کو تر جیح دے۔

نا بالغ کی ترجیح

اگر نا بالغ اس قابل ہو

وہ سمجھ داری سے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے

ولی کے طور پر کسی شخص کو دوسرے شخص پر ترجیح دے سکتا ہو تو

عدالت اس کی خواہش کا احترام کرے گی ۔

نا بالغ کم خواہشات کا اظہار کرنے کے قابل نہ ہو تو

عدالت ولی مقرر کرتے وقت نا بالغ کی خواہشات کو رد کر سکتی ۔۔۔

اگر نا بالغ ولی کی تحویل سے چلا جائے یا کوئی شخص نا بالغ کو ولی کی تحویل سے لے جائے 

قانون ولی بالغاں کے تحت اگر نا بالغ دلی کی تحویل سے خود چلا جائے کوئی شخص نا بالغ کو ولی کی تحویل سے لے جائے تو عدالت اگر یہ سمجھے کہ نابالغ کے مفاد میں ہے کہ اس کی پرورش و نگہداشت کیلئے اس کو دوبارہ دلی کی تحویل میں دیا جائے تو عدالت

نا بالغ کو ولی کی تحویل سے لے جانے والے شخص کو گرفتار کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔

نا بالغ کو بازیاب کرانے کیلئے عدالت تلاشی کا وارنٹ جاری کر سکتی ہے۔

 قانون ولی نا بالغاں کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔

مجموعه فوج داری کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔

اگر تا بالغ 14 سال سے کم عمر بچی ہے تو مجموعہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 551 کے تحت کارروائی کی جائیگی۔

 ولی کے حقوق فرائض اور ذمہ داریاں

قانون ولی نا بالغاں کا بنیادی مقصد نابالغ کی فلاح ہے۔ اس قانون میں ولی کو اسی بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ ہر کام نا بالغ کی فلاح کو سامنے رکھتے ہوئے کرے۔

ہم أمید کرتے ہیں آپ کوگارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ  کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔                

    MUASHYAAAT.COM  👈🏻  مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں

ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ

……..گارڈین اینڈ وارڈز ایکٹ   ……..

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *