معاشرتی مسائل کے عمومی اسباب اور نوعیت ⇐ آج کل دنیا کے تمام معاشروں میں جہاں معاشرتی مسائل کی شدت کو محسوس کیا جا رہا ہے ۔اس بات پر توجہ دی جارہی ہے کہ ان مسائل کے پیدا کرنے والے اسباب کا پتہ چلا کر ان کو معاشرے سے ختم کرنے کے سلسلے میں مؤثر اقدامات کئے جائیں۔ تحقیق اور مشاہدے سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ کسی ایک معاشرتی مسئلے کے ابھرنے کا کوئی ایک سبب نہیں ہوتا بلکہ کئی اسباب مل کر معاشرے میں مسئلے کو ابھارتے ہیں۔
مسائل کا شکار
یوں بھی دیکھا گیا ہے کہ کسی ایک سبب سے معاشرہ بیک وقت کئی مسائل کا شکار بن گیا اور کبھی معاشرے میں ایک مسئلے کے پیدا ہونے سے کئی دوسرے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
مطالعہ
معاشرتی مسائل کے عمومی اسباب اور نوعیت مسائل کا گہرا مطالعہ اور ان کے اسباب کی تحقیق ہی درست نتائج تک پہنچا سکتی ہے۔
مختصر جائزہ
تمام معاشروں میں معاشرتی مسائل کے پیدا کرنے میں جن اسباب کا گہرا دخل ہے ان کا مختصر جائزہ درج ذیل ہے۔ ان میں چند مسائل میں ایسے ہیں جن کا تعلق پاکستان سے ہے۔
ترقی یافتہ
یہاں کے خاص پس منظر اور حالات کے سبب پیدا ہوئے ہیں جبکہ بیشتر مسائل ایسے ہیں جو نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشروں میں موجود ہیں۔
معاشرتی تغیر
معاشرتی تغیر سے مراد ہے
معاشرے میں آنے والی تبدیلیاں ۔ معاشرتی تغیر
ہر دور اور ہر معاشرے میں آتا رہا ہے اور آج بھی دنیا کے بیشتر معاشرے تبدیلیوں سے دوچار ہیں ۔ جہاں ان تبدیلیوں کو معاشرے میں لانے میں ایک طبقہ نمایاں کردار انجام دے رہا ہے وہاں ہر معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہوتا ہے
تنازعہ اقدار
جو ان تبدیلیوں کی مخالفت کرتے ہوئے ان تبدیلیوں کی راہ میں رکاوٹیں ڈالتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں دو متضاد طرز فکر رکھنے والے طبقے پیدا ہو جائیں تو معاشرہ کئی مسائل سے دوچار ہو جاتا ہے جن میں والدین اور اولاد کے درمیان تنازعہ اقدار میں تنازعہ نو جوانوں کی بے راہ روی اور خاندانی انتشار جیسے مسائل قابل ذکر ہیں۔
معاشرتی ادارے
معاشرتی مسائل کے عمومی اسباب اور نوعیت اس کے علاوہ جب معاشرتی ادارے تغیر کی زد میں آتے ہیں تو ان کی ساخت اور وظائف میں تبدیلیاں آتی رہتی ہیں
متعلقہ اداروں میں انتشار
جن کے سبب متعلقہ اداروں میں انتشار پھیلتا ہے اور یہ ادارے افراد کی ضرورت کی تسکین کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ ان حالات میں مسائل تعلیم مسائل خاندان مسائل شادی اور سیاسی و معاشی میدان میں مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
ابتدائی دور
پاکستان اور دنیا کے بہت سے معاشرے آج کل تبدیلیوں کے ابتدائی دور سے گزر رہے ہیں جن میں تبدیلیاں معاشرتی زندگی سے ہم آہنگ نہیں لہذا یہاں بیشتر مسائل پیدا ہو گئے ہیں۔
صنعتی ترقی
مشینوں کی ایجاد سے صنعتوں کو ترقی حاصل ہوئی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ صنعتی ترقی سے قومی معیشت میں اضافہ ہوتا ہے اور ملک ترقی کر سکتا ہے مگر شروع شروع میں صنعتی ترقی سے معاشرے میں کچھ ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جو ملک کیلئے بجائے فائدے کے مسائل کا سبب بن جاتی ہیں۔ مثلاً ایسے معاشرے جہاں کی معیشت کا دار و مدار زراعت پر رہا ہے
بے روزگاری
صنعتوں کو فروغ دینے سے غربت بے روزگاری اور طبقاتی کشمکش پیدا ہوگئی ہے۔ خاص طور پر ہمارے کسان روائتی طریقوں کے عادی ہیں اور کاریگر جو ہاتھ کی محنت سے روزگار حاصل کرتے ہیں یا جانوروں کی مدد آمدورفت کا کام لیتے ہیں
بیروزگاری کے شکار
صنعتوں کی ترقی سے بیروزگاری کے شکار ہو گئے ہیں۔ ان کی محنت کی اہمیت نہیں رہی۔ صنعتی ترقی سے سرمایہ دارانہ نظام کو تقویت ملی ہے ۔
تفریح کے ذرائع
محنت کشوں کے دل میں ان کیخلاف نفرت کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ صنعتی ترقی سے جہاں شہروں کو فروغ ملتا ہے وہاں روپیہ پیسہ کی ریل پیل سے نائٹ کلب جوا خانے طوائفوں کے اڈے اور سینما جیسے غیر صحتمند تفریح کے ذرائع میں بھی اضافہ ہوتا ہے
برے اثرات
جو بچوں اور نو جوانوں کے ذہن پر برے اثرات مرتب کرتا ہے اسکے نتیجے میں مختلف جرائم بے راہ روی خاندانی انتشار طبقاتی کشمکش جیسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
ثقافتی خلاء
ثقافت کے مادی پہلوؤں میں ترقی کی رفتار تیز ہو جاتی ہے جبکہ ثقافت کے غیر مادی پہلو اس رفتار سے ترقی نہیں کرتے جس کے نتیجے میں معاشرے میں ایک طرح کا طرز فکر اور عملی زندگی میں فاصلہ یا خلیج پیدا ہو جاتا ہے جس کو ماہر عمرانیات ولیم ایف آگبرن نے ثقافتی خلاء کا نام دیا ہے۔
ترقی کے سبب
جن معاشروں میں ثقافتی خلاء پایا جائے وہاں چند ایک مسائل پائے جاتے ہیں جن میں بوڑھوں کا مسئلہ والدین اور اولاد کے درمیان تنازعہ نوجوانوں کی بے راہ روی جیسے مسائل قابل ذکر ہیں ثقافت کے مادی پہلوؤں میں ترقی کے سبب معاشرے میں ترقی کی رفتار تیز ہو جائے
روایات
معاشرتی مسائل کے عمومی اسباب اور نوعیت دوسری طرف اقدار و روایات یا افکار ان کے استعمال کی اجازت نہ دیں تو بیروزگاری اور غربت جیسے مسائل بڑھتے ہیں۔
زندگی کی مصروفیات اور الجھنیں
آج کا دور سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا دور ہے ۔ روز مرہ زندگی میں مشینوں کا استعمال عام ہوتا جارہا ہے جس سے ایک طرف صنعتوں کو فروغ ہو رہا ہے تو دوسری طرف انسانی محنت کی قدر و قیمت گھٹتی جارہی ہے۔
فلک بوس عمارتیں
فلک بوس عمارتیں، تیز رفتار سواریاں ملیں، کارخانے یہ سب آج کے معاشرے کی ترقی کی عکاس ہیں۔
تمام آسائشیں
یہ حقیقت ہے کہ آج کے انسان کو وہ تمام آسائشیں میسر ہیں جو پہلے نہیں تھیں۔ مگر جہاں تک اس کی معاشرتی زندگی اور اس کی مصروفیات کا تعلق ہے وہ دن بدن پیچیدہ ہوتی جارہی ہے اور اس میں الجھنیں اور مسائل بڑھتے جارہے ہیں۔
پیچیدگی کے سبب
زندگی کی پیچیدگی کے سبب مقابلے کا رجحان بڑھ گیا ہے۔ ہر فرد ترقی کی دور میں دوسرے پر سبقت لے جانا چاہتا ہے۔ بنیادی ضروریات کے حصول کیلئے بھی اسے بے حد محنت اور کوشش کرنی پڑتی ہے۔
احساس کمتری
وہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے یا ناکام ہو جائے تو وہ شدید احساس کمتری میں مبتلا ہو کر الجھنوں کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس صورت میں باغیانہ جذبات ابھر آتے ہیں
تخریبی سرگرمیوں میں حصہ
جن کے سبب وہ تخریبی سرگرمیوں میں حصہ لینے لگتا ہے۔ قوانین کی خلاف ورزیاں کرنے لگتا ہے۔ ان حالات میں جرائم بے راہ روی ذہنی امراض اور انتشار جیسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
اقداری کشمکش
غیر مادی ثقافت میں تغیر سے اقدار متاثر ہوتی ہیں۔ پرانی قدریں اہمیت کھو دیتی ہیں اور ان کی جگہ نئی اقدارنئے معیارات کے ساتھ ابھرتی ہیں ۔ اس لئے ان میں تبدیلی لوگ برداشت نہیں کرتے۔ کچھ لوگ نئی اقدار کا دفاع کرتے ہیں
پرانی اقدار
کچھ لوگ پرانی اقدار کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اس کشمکش سے معاشرہ بیک وقت کئی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے ۔ والدین اور اولاد کے درمیان تنازعات پھوٹ پڑتے ہیں۔
صوبائیت کے جھگڑے
اس کے علاوہ ایسے معاشرے جہاں مذہبی ثقافتی اور نسلی اعتبار سے مختلف قومیتوں کے لوگ رہتے ہوں وہاں بھی متضاد اقدار کام کرنے لگتی ہیں جس سے طبقاتی کشمکش’ صوبائیت کے جھگڑے اور تصادم جیسے مسائل ابھر آتے ہیں۔
معاشرتی انتشار
کبھی بھی معاشرے میں ادارے اپنے فرائض کی ادائیگی میں نا کام رہتے ہیں جس سے افراد کی ضروریات کی تکمیل بحسن و خوبی نہیں ہوتی تو اس سے نہ صرف اس متعلقہ سماجی ادارے میں بلکہ تمام معاشرے میں انتشار اور بد نظمی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے
جرائم
جرائم ہے راہ روی سیاسی عدم استحکام خاندانی انتشار اور معاشی مسائل کو فروغ ملتا ہے۔
غربت
معاشی حالات کی خرابی یا غربت کو ماہرین عمرانیات نے بہت سے مسائل کا سبب قرار دیا ہے۔ غربت بذات خود بھی ایک معاشرتی مسئلہ ہے۔ اس سے نہ صرف دیگر مسائل پیدا ہوتے ہیں بلکہ غربت سے ملک کی تعمیری اور ترقیاتی سرگرمیوں میں بھی رکاوٹ پڑتی ہے۔
غریب معاشروں میں افراد
غریب معاشروں میں افراد اپنی ضروریات کی تکمیل قانونی حدود میں نہیں کر سکتے تو وہ غیر قانونی ذرائع اپنا لیتے ہیں۔ اس سے ملک میں جرائم اور بے راہ روی جیسے مسائل عام ہو جاتے ہیں۔ غربت کے سبب والدین اپنے بچوں کی مناسب تعلیم و تربیت کا انتظام نہیں کر سکتے ۔
بچوں کی پرورش
غریب معاشروں میں تعلیمی اداروں شفا خانوں اور تفریح گاہوں کی بھی کمی ہوتی ہے جس سے بچوں کی پرورش پر برا اثر پڑتا ہے۔ غریب معاشروں میں حفظان صحت کے اصولوں کی پابندی ممکن نہیں ۔ لوگ تنگ و تاریک مکانوں میں رہتے ہیں۔ ناقص غذا کھاتے ہیں اور مہلک امراض میں مبتلا ہو کر مر جاتے ہیں۔
دلچسپ انکشاف
عمرانی تحقیق سے ایک دلچسپ انکشاف یہ ہوا ہے کہ غریب معاشروں میں شرح پیدائش بلند ہوتی ہے جس کا سبب یہ ہے کہ غربت کے سبب لوگوں کو تفریح کا موقع نہیں ملتا اور ان کی تفریح کا سامان بچے ہوتے ہیں۔
ترقی پذیر
آبادی میں اضافہ ترقی پذیر معاشروں کا سنگین مسئلہ ہے اور اس مسئلے کے پیدا کرنے میں غربت کا کافی دخل ہوتا ہے۔
دیہی اور شہری نقل مکانی
دیہات کی آبادی کا شہروں کی جانب ہجرت کا سلسلہ دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ شہری زندگی کی چمک دمک اور روپے پیسے کی زیادتی کا تذکرہ دیہاتیوں کے دل میں شہر جا کر دولت مند بننے کی خواہش ابھارتا ہے
آبائی پیشوں
وہ اپنی روایتی زندگی اور آبائی پیشوں کو ترک کر کے شہروں کی جانب چل پڑتے ہیں
دشواریوں کا سامنا
شہر پہنچ کر انہیں زبر دست دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے یہ نہ صرف خود پریشان ہوتے ہیں بلکہ ان کی موجودگی شہروں کو کئی مسائل کا شکار بنا دیتی ہے۔ دیہاتیوں کی شہروں کی جانب نقل مکانی سے ان کی آباد کاری مسئلہ بنتی جارہی ہے۔
سادہ لوح
اس کے علاوہ بھی بے شمار مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔ مثلاً دیہاتی عموما ان پڑھ ہوتے ہیں وہ کسی میدان میں مہارت بھی نہیں رکھتے ۔ بے انتہا سادہ لوح اور اونچ نیچ کو سمجھنے سے قاصر ہوتے ہیں۔
دیہات
وہ دیہات سے اپنے ذہن میں راتوں رات امیر بننے کا تصور لے کر شہروں کی جانب آتے ہیں۔ یہاں آکر جب انہیں ملازمت نہیں ملتی تو ان کیلئے غذا اور رہائش کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے ۔
پسماندہ علاقوں
ان حالات میں عموما انہیں شہر کے گندے اور پسماندہ علاقوں میں رہنا پڑتا ہے۔ یہاں پر انہیں جرائم کی ترغیب ملتی ہے یا انہیں جرائم پیشہ لوگ آلہ کار بنا کر اپنا مقصد پورا کرتے ہیں۔
مشکلات
ان حالات میں وہ مجرم اور ان کے بچے بے راہ روبن جاتے ہیں۔ ایسے لوگ جیب کترے چور اور اسمگلر بن جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ان دیہاتیوں کیلئے شہری اور دیہاتی زندگی کا فرق بھی عذاب جان بن جاتا ہے۔ شہری زندگی سے عدم مطابقت ان کیلئے مشکلات اور مسائل پیدا کر دیتی ہے۔
جنگ یا سیاسی بحران
ہر معاشرے میں امن وسکون کی بحالی اور تنظیم برقرار رکھنے کیلئے سیاسی استحکام لازمی ہوتا ہے ۔ اگر حکومت یا سیاسی ادارے اپنی ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام دینے سے قاصر رہیں تو ملک انتشار کا شکار ہو جاتا ہے
لاقانونیت
لاقانونیت پھیل جاتی ہے۔ خود غرض اور بد کردار افراد اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں
انتشار
جس سے جرائم بے راہ روی اور انتشار پھیلتا ہے۔ اس قسم کے حالات پیدا کرنے میں جنگ کا بھی کافی دخل ہے۔ وہ معاشرے جہاں جنگ چھڑتی ہو اندرونی طور پر وہ انتشار بد نظمی اور مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں چونکہ حکومت کی پوری توجہ دشمن سے مقابلے پر ہوتی ہے۔
ملک کے اندرونی معاملات
ملک کے اندرونی معاملات پر توجہ کم ہو جاتی ہے۔ اس موقع سے مجرم اور ملک دشمن عناصر نا جائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ معاشی حالات پر بھی جنگ کا برا اثر ہوتا ہے۔ جنگ کے دوران ملک میں مہنگائی بڑھتی ہے۔ اشیاء کا ملنا دشوار ہو جاتا ہے۔
مصنوعی قلت
ان حالات میں اسمگلنگ ذخیرہ اندوزی چور بازاری اشیاء کی مصنوعی قلت جیسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔ جنگ کے خاتمے پر بھی کچھ مسائل پیدا ہو جاتے ہیں ۔ مثلاً جنگ میں مرد کام آجاتے ہیں عورتیں اور بچے بے سہارا رہ جاتے ہیں جس سے مزید کئی مسائل جنم لیتے ہیں۔
شخصی انحطاط
ہر معاشرہ افراد کے کردار کو منظم کرنے کیلئے کچھ اصول وقوانین، نظام ، اقدار اور معیارات کو تشکیل دیتا ہے جس کی ہرفرد کو پابندی کرنی پڑتی ہے۔ اگر کوئی فردان سے انحراف کرتا ہے تو معاشرہ اس کا محاسبہ کرتا ہے
قابل سزا
وہ فرد مذہب ، معاشرتی قوانین اور حکومت کی نظر میں قابل سزا ہوتا ہے۔ جیسے شراب نوشی بدکاری بری عادات میں مبتلا ہونا، جنسی بے راہ روی ہمارے معاشرے میں شخصی انحطاط کی نشانیاں ہیں اور ایسا فرد قابل مذمت اور قابل سزا ہے۔
شخصی انحطاط
شخصی انحطاط عام ہو جائے تو معاشرے میں بے راہ روی، جرائم اخلاقی گراوٹ اور انتشار جیسے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
نسل یا ثقافتی اختلافات
وہ معاشرے جہاں مختلف ثقافتوں کا وجود ہو گروہی تنازعات، صوبائیت اور اونچ نیچ برتری کم تری جیسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں اس لئے کہ ہر ثقافت سے متعلق طبقے میں اپنے آپ کو زبان لباس رسم و رواج اور طور طریقوں کو اچھا اور دوسروں کو کمتر یا برا سمجھنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔
قومی استحکام
یہ احساس ایک ملک کی سالمیت کو ختم کرنے اورقومی استحکام کو پارہ پارہ کرنے کا سبب بنتا ہے۔ اس کے علاوہ آج کل تمام دنیا میں رنگ ونسل اور ذات پات کی بنیاد پر اونچ نیچ کا امیر بھی مسئلہ بنا جا رہا ہے۔ امریکہ میں نیگرو اور سفید فام اقوام کے درمیان تنازعہ اور ہندوستان میں طبقاتی کشمکش اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔
ثقافتی اختلافات
ہمارے معاشرے میں ثقافتی اختلافات کے باعث صوبائیت جیسا خطرناک مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ زبان لباس، رسوم و رواج اور طرز زندگی کے اختلاف نے ہمارے لوگوں میں اتفاق و اتحاد کے رشتے کو کمزور کر دیا ہے جس سے معاشرہ انتشار کا شکار ہے اور ملکی سالمیت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
جسمانی اور ذہنی امراض
جسمانی یا ذہنی اعتبار ہے بیمار افراد اپنی ذمہ داریوں اور فرائض کو پورا نہیں کر سکتے بلکہ ان کی کفالت اور تیمار داری دوسروں پر بوجھ بن جاتی ہے۔ اگر خاندان کا سرپرست بیمار ہو جائے تو خاندان کی کفالت مسئلہ بن جاتی ہے۔ اگر ماں بیمار ہے تو پورے گھر کا نظام درہم برہم ہو جاتا ہے۔
بچوں کی تربیت اور دیکھ بھال
بچوں کی تربیت اور دیکھ بھال متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح اپاہچ یا بیمار بچے بھی والدین کیلئے باعث رنج و پریشانی بنے رہتے ہیں جن کا والدین کی صحت پر برا اثر پڑتا ہے
جسمانی یا ذہنی امراض
وہ اپنی دیگر ذمہ داریوں کو بحسن و خوبی انجام نہیں دے سکتے۔ جسمانی یا ذہنی امراض میں اضافہ قومی سطح پر دیکھا جائے تو یہ پوری قوم کی ترقی اور تعمیر میں رکاوٹ بن جاتا ہے
ملک کی تعمیر وترقی
اس لئے کہ وہ افراد جو ذہنی اور جسمانی طور پر کام کے قابل نہیں نہ صرف یہ کہ ملک کی تعمیر وترقی میں حصہ نہیں لے سکتے بلکہ ان کے علاج یا دیکھ بھال کا بوجھ حکومت اور دوسرے تندرست افراد کو بھی برداشت کرنا پڑتا ہے ان حالات میں بچوں کی بے راہ روی، جرائم بیروزگاری اور خواتین کی بے راہ روی جیسے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔
قدرتی آفات
جب بھی کوئی معاشرہ قدرتی آفات کا شکار ہو جاتا ہے تو اس میں ایک طویل عرصے تک مسائل کی شدت کو محسوس کیا جاتا ہے۔ سیلاب زلزلے قحط اور وبائی امراض کے پھوٹنے سے آبادی کا ایک بڑا حصہ ختم ہو جاتا ہے۔
پیداوار
پیداوار اور صنعتیں متاثر ہوتی ہیں، کام کرنے والوں کی کمی کے سبب روز مرہ زندگی کے کاموں میں خلل پڑتا ہے
آبادکاری کا مسئلہ
بے گھر افراد کی آبادکاری کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے جرائم کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے
جسمانی اور ذہنی امراض
جسمانی اور ذہنی امراض کی تعداد میں اضافہ مسئلہ بن جاتا ہے۔ معاشرے کی از سر نو تعمیر وتشکیل میں ایک طویل عرصے تک کوشش اور جد و جہد کرنی پڑتی ہے۔
رسم ورواج روایات
عام زندگی کے وہ طور طریقے جو کسی زمانے میں آباء و اجداد کی نظر میں پسندیدہ تھے۔ نسل در نسل منتقل ہو کر بغیر کسی تبدیلی کے اپنا لئے جاتے ہیں۔
رسم ورواج
ان طریقوں کو رسم ورواج کا نام دے کر ہر معاشرہ میں ہر فردکوان کا پابند بنایا جاتا ہے۔ بعض رسم و رواج وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنی اہمیت کھو دیتے ہیں بلکہ وہ تکلیف دہ اور نقصان پہنچانے والی قدریں بن جاتے ہیں
آباء واجداد
آباء واجداد کی تقلید کا رجحان انہیں اپنانے پر مجبور رکھتا ہے ۔
معاشرتی زندگی
ہندوستان پاکستان افریقہ آسٹریلیا کے قبائلی علاقوں میں معاشرتی زندگی میں رسم و رواج اور روایات کا کافی دخل ہے۔ ان معاشروں میں ہمیں ایسے مسائل ملتے ہیں
مذہبی اور ثقافتی تہوار
جن سے عوام سخت پریشان تو لگتے ہیں مگر ان سے نجات حاصل کرنا ان کے بس کی بات نہیں۔ ان مسائل میں جہیز شادی بیاہ کی رسومات پر فضول اخراجات مذہبی اور ثقافتی تہوار رمیں مختلف موقعوں پر تحائف کا تبادلہ جیسے مسائل قابل ذکر ہیں۔
ہم أمید کرتے ہیں آپ کو “معاشرتی مسائل کے عمومی اسباب اور نوعیت“ کے بارے میں مکمل آگاہی مل گئی ہوگی۔۔۔
👈🏻مزید معلومات کیلئے ہمارے اس لنک پر کلک کریں
ہماری ویب سائٹ پر آنے کیلئے شکریہ